| گفتارِ گسترانہ سے گستر نکال کر |
| پچھتا رہے ہیں مودی جی خنجر نکال کر |
| اپنے تئیں سمجھنا بڑی توپ چیز ہوں |
| پھرتے تھے آسمان پہ وہ پر نکال کر |
| مودی کے لئے دس مئی کا دن ہے یادگار |
| باہر نہ اب نکلنا کبھی سر نکال کر |
| جب تک یہ زندہ ہے نہ ہو گا امن دوستو |
| جنگل کو کر دو صاف اک سُوئر نکال کر |
| اب خالصتان بھی بنے گا دوستو ضرور |
| لیکن یہ کام ہو گا سارے ڈر نکال کر |
| بھارت کرے جو سال گیارہ مہینوں کا |
| واللہ بنو خوش بخت ستمبر نکال کر |
| سترہ ستمبر ہی وہی تاریخ ہے امید |
| روئی تھیں جس دن ماتا نریندر نکال کر |
معلومات