مَیں تری یاد میں جس کرب سے دو چار رہا
وہ ترے ہجر سے بھی بڑھ کے گراں بار رہا
کل وہ بچھڑا تو کئی سال بھلانے میں لگے
آج اسے دیکھا تو کچھ اور بھی بیزار رہا
لُٹ گئی ہائے فلسطین میں بِنّتِ حوّا
اِبنِ مُوسیٰ سا کہاں اور ستم گار رہا
محض سقراط پہ موقوف نہیں عظمتِ کردار
سچ کہا جس نے بھی وہ اب بھی سرِ دار رہا
آج جس دوست کی جی بھر کے اچھالی توقیر
کل تلک خود بھی اسی گھر کا نمک خوار رہا
صحت اچھّی ہے رقیبوں نے اسے طول دیا
مَیں تری یاد میں کس وقت نہ بیمار رہا
بچوّں کا دودھ نہیں رات کا کھانا بھی نہیں
ایسی مجبوری میں ہمسایہ خریدار رہا
ہم سبھی وقت کے ہاتھوں میں کھلونے ہیں امید
کس کو دعویٰ ہے کہ وہ گوہرِ شہوار رہا

0
10