| آنکھ سے دیکھ کے بھی دل سے بہت دُور رہا |
| مَیں تو معذور تھا وہ مجھ سے بھی معذور رہا |
| کسی کو دیکھ کر یکدم وہیں پہ رُک جانا |
| سرِ محفل یہ تماشا بڑا مشہور رہا |
| نا کلیم اُللہ ہے اب وہ اور نہ موسیٰ کہیں |
| طُور جو طُور تھا وہ آج بھی کوہ طُور رہا |
| ہر تغیّر کو تغیّر ہے زمانے میں مگر |
| کل جو مزدور تھا وہ آج بھی مزدور رہا |
| دُور رہ کر بھی تری یاد بہت آتی رہی |
| دُور ہوں تجھ سے مگر پوچھ نہ کیوں دُور رہا |
| دل کی بات آج تلک دل میں ہی رکھّی خواجہ |
| پر جو مستور تھا کل آج وہ مسطور رہا |
معلومات