| کبھی حرم تو کبھی دَیر پے مچلتا ہے |
| مرا مزاج نئی کروٹیں بدلتا ہے |
| حقیر جان کے مجھ پر نگاہِ غیظ نہ ڈال |
| مَیں وہ دیا ہوں جو طوفان میں بھی جلتا ہے |
| مرے وطن میں ہر اک شخص پارسا ہے مگر |
| مرا وجود کیوں ہر آدمی کو کھلتا ہے |
| وہ جس کے قہر سے دنیا کی سانسیں رکتی تھیں |
| اب آ کے دیکھو اسے کیسے ہاتھ ملتا ہے |
| یہاں امیروں کا ہر چیز پر تصرفّ ہے |
| فقط غریب کڑی دُھوپ میں بھی جلتا ہے |
| بہت سی ظلم کی قسمیں ہیں پر وہ اک ظالم |
| جو راتوں رات کلی ادھ کھِلی مسلتا ہے |
| اگر ملے تو کبھی اس سے اتنا کہہ دینا |
| جو تم پہ مرتا تھا اب روز روز مرتا ہے |
| نہ اب یقین کسی پر نہ اعتماد امید |
| ہر ایک شخص نیا راستہ بدلتا ہے |
معلومات