| بیٹھے ہیں اسی راہ پہ بچھڑے تھے جہاں سے |
| وابستہ ہیں پر آج بھی اس دردِ نہاں سے |
| اس آدمِ خاکی کی اِڑی خاک زمیں پر |
| بے قدرئی افلاک سے کچھ عشقِ بتاں سے |
| کچھ سال نہیں آدھی صدی کی ہے حقیقت |
| آئے تھے بڑی شان سے جب خُلدِ زماں سے |
| دنیا کی تگ و تاز بھی اور رفعتِ دوراں |
| خوش بخت کبھی اور کبھی تشنہ جہاں سے |
| افراطیٔ و تفریط کا بھی کھیل عجب ہے |
| پہچان ہے آدم کی مگر سود و زیاں سے |
| کچھ ثانئے اس سمت بھی اے پیکرِ خاکی |
| یہ اہلِ فلسطین ہیں شاکی ہیں جہاں سے |
| ہیں بر سرِ پیکار یہ موسیٰ کی نسل سے |
| پہچانتے ہیں لوگ جنہیں عقلِ زماں سے |
| گو نسلِ پیمبر ہیں مگر فتنۂ دوراں |
| اصلاً تو چچّا زاد ہیں پر فتنہ رساں سے |
| خوں ریزی و مقتل کے ہیں معمار و پرستار |
| پر دانش و دھنوان کے بھی رُوحِ رواں سے |
| جب حشر میں اسحاق سے آنکھیں ہوئیں دو چار |
| اندازِ بیاں ڈھونڈنا تاویلِ بیاں سے |
| سب ساکت و صامت ہیں بہم دیکھ رہے ہیں |
| انسان پہ انساں کے ستم دیکھ رہے ہیں |
معلومات