وہ رہ گِزر ہے دل کی کہ منزل نہیں کہیں
یہ بحر ہے وہ بحر کہ ساحل نہیں کہیں
آدم کے حرص و آز نے جنگل بنا دیا
بستی بھری پُری ہے پہ ہلچل نہیں کہیں
انصاف قتل ہوتا ہے مُنصف کے رُو برو
عادل ترے نظام سا باطل نہیں کہیں
کیوں عار ہو اس بات میں مجھ کو ذرا امید
دنیا میں تجھ سا حُورِ شمائل نہیں کہیں

0
47