| وہ رہ گِزر ہے دل کی کہ منزل نہیں کہیں |
| یہ بحر ہے وہ بحر کہ ساحل نہیں کہیں |
| آدم کے حرص و آز نے جنگل بنا دیا |
| بستی بھری پُری ہے پہ ہلچل نہیں کہیں |
| انصاف قتل ہوتا ہے مُنصف کے رُو برو |
| عادل ترے نظام سا باطل نہیں کہیں |
| کیوں عار ہو اس بات میں مجھ کو ذرا امید |
| دنیا میں تجھ سا حُورِ شمائل نہیں کہیں |
معلومات