| پھر وہی طعنے وہی شکوے وہی آہ و بکا |
| کاش کہ اس کے علاوہ بھی تمہیں کچھ سُوجھتا |
| مَیں بھی دیکھوں شکل اپنی تم بھی دیکھو غور سے |
| پھر کسی ثالث سے کہہ دیں گے سنائے فیصلہ |
| جانے ان زہرہ جمالوں کو ہے اتنا وہم کیوں |
| کوئی بھی ان کے برابر کا نہیں ہے دوسرا |
| اور بھی کوئی تفاوت ہے تو کہہ دو برملا |
| تم ابھی بی اے میں ہو اور مَیں نے ایم اے کر لیا |
| سب رقیبوں سے ہے ناطہ سب سے ہے قربت مری |
| وہ بھی سارے تم سے نالاں ہیں سبھی تُم سے خفا |
| ہر جگہ کہتی ہو میرے دادا جی تھے ڈاکٹر |
| میرے نانا بھی تو جج تھے پر کبھی مَیں نے کہا |
| لمبی لمبی چھوڑتی رہتی ہو مثلاً اس طرح |
| مرزا غالب نانو کے گھر آ کے کرتے ناشتہ |
| صاحبِ بانگِ درا ماموں کے یارِ غار تھے |
| کوئی بھی الجھن اگر ہوتی تو کرتے مشورہ |
معلومات