| چھیڑو نہ فسانے محمل کے اور بات کرو انسانوں کی |
| چپُّو نہ چلاؤ ساحل پر اور فکر کرو طوفانوں کی |
| بھگوان کے پاس تو وقت نہیں انسان بھی گونگے بہرے ہیں |
| یہ دَور ہے پتھّر کا لوگو یاں کس کو قَدَر ارمانوں کی |
| وہ دیکھو کُٹیا کے اندر اک جانِ سوختہ لیٹی ہے |
| جو رام کے واسطے دیتی رہی پر کون سنے بھگوانوں کی |
| یہ سچ ہے وہاں دم گھُٹتا ہے اور گرمی بھی دوزخ جیسی |
| پر مفت کی روٹی ملتی ہو تو فکر نہیں زندانوں کی |
| جو روشن کر دے محفل کو اور خود بھی منوّر رہتی ہو |
| وہ محسن ہے سب کی یارو اسے کیا حاجت پروانوں کی |
| بچّوں کے لئے روٹی مشکل اور کپڑا لتّا بھی دوبھر |
| اس پر بھی تانتا ہے گھر میں اور بھیڑ لگی مہمانوں کی |
| گر اوپر چھت افلاک کی ہے اور نیچے بھی کوسوں ہے زمیں |
| اور در بھی نہیں امید کہیں تو کیا خواہش دربانوں کی |
معلومات