| اس کے چہرے سے ہزیمت کا گماں ہوتا ہے |
| ہونٹ خاموش ہیں پر درد بیاں ہوتا ہے |
| میرے دشمن نے جلائے ہیں کہیں گھی کے چراغ |
| میری بربادی پہ وہ رقص کناں ہوتا ہے |
| حُسن کو عشق سے مِنجملہ تقابل کی ہے ضِد |
| آئیے سب دیکھیں وہاں کس کا زیاں ہوتا ہے |
| سامنے میرے کوئی تُم کو بُرا کہتا ہے جب |
| مجھ پہ وہ لمحہ بڑا بارِ گراں ہوتا ہے |
| اتنی غربت ہے مرے دیس میں اے اہلِ ہوس |
| آٹھ دس سال کا ہر بچّہ جواں ہوتا ہے |
| کاش کہہ دیتا وہ مجھ سے بھی ابھی نا جاؤ |
| تجھ سا سنگ دِل بھی زمانے میں کہاں ہوتا ہے |
| ہنسنا ہر وقت کا تجھ کو نہ بھسم کر ڈالے |
| آگ لگتی ہے تو ہر سمت دھواں ہوتا ہے |
| کوئی سنّاٹے سا سنّاٹا ہے بستی میں امید |
| اب تو شہروں پہ بھی قبروں کا گماں ہوتا ہے |
معلومات