| چوٹ ظاہر ہو نہ ہو پر چہرہ تو غمّاز ہے |
| درد ہے شاید کہیں یا طبع کچھ ناساز ہے |
| سوچتا ہوں اور کچھ ہوتا ہے لیکن مختلف |
| کیا کوئی میرے ارادوں میں خلل انداز ہے |
| تیر مارا تھا کسے اور ہو گیا کوئی شکار |
| جاؤ بتلاؤ کہ وہ کچّا نشانے باز ہے |
| قائدِ اعظم تری دھرتی کو ظالم کھا گئے |
| نا کہیں شاہیں نظر آتا ہے نا شہباز ہے |
| ہمسری اس کے ترنّم کی کہیں ممکن نہیں |
| زلزلے برپا ہیں ہر جا ایسا خوش آواز ہے |
| چیر ڈالو ختم کر دو ان کے سارے خاندان |
| بس ذرا تھوڑا توقّف گوش بر آواز ہے |
| مِل گئے مِٹّی میں سارے لُٹ گئے سارے غریب |
| یہ وہ بد قسمت ہے جو اب تک نظر انداز ہے |
| کیا ہؤا وہ تیرے ارشادات کا ناطق وجود |
| ظالموں کے سامنے جو خود سپر انداز ہے |
| کل تلک جو اوج پر تھے اب فقیرِ راہ ہیں |
| بے خبر انساں تری پستی کا یہ بھی راز ہے |
| میری بھی خواہش ہے اک قصرِ شہی تعمیر ہو |
| آہ لیکن دسترس میں زر ہے نا ممتاز ہے |
| خواجہ صاحب چلتے ہیں اس جنّت الفردوس کو |
| نا کوئی ظالم ہے جس میں نا ہی دھوکے باز ہے |
معلومات