| دیکھ کر مجھ کو وہ پہچان نہیں پایا امید |
| اس کی دانست میں شاید تھا مرا سایہ امید |
| اس کی آمد پہ سبھی ارض و سما جھوم اٹھے |
| چاند تاروں نے کہا دیکھ لو کون آیا امید |
| بندوبست آج بھی فیسوں کے لئے ہو نہ سکا |
| بس یہی وجہ تھی وہ دیر سے گھر آیا امید |
| حسرت ہوتے تو کوئی پوچھتا کہئیے قبلہ |
| کسی پتھّر نے کوئی گیت کبھی گایا امید |
| کون قاتل ہے ترے بیٹے کا آؤ سُن لو |
| اس کو قانون نے انصاف نے مروایا امید |
| تیرے بہتان نے اس لڑکی کو برباد کیا |
| اس سے پوچھا تو بڑے فخر سے شرمایا امید |
| کیوں نہ اب جا کے رہیں دُور کسی بن میں امید |
| سن کے یہ جملہ بڑے خوف سے گھبرایا امید |
معلومات