| ایسی تقدیس ہے رشتوں کے پیار میں |
| جیت ہی جیت ہے جس کی ہر ہار میں |
| جب گلے مِل گئے رُوح لرزا گئی |
| سب فِرِستادہ حاضر تھے دربار میں |
| آج احساسِ عقل و خرد مِٹ گئے |
| بجلیاں بھر گئیں دل کے ہر تار میں |
| نفرتوں سے کہو آؤ دیکھو ذرا |
| کتنی حِدّت ہے ماں باپ کے پیار میں |
| ہونٹ ہلنے لگے لفظ بننے لگے |
| آنسو پلکوں پہ آ کے گرے پیار میں |
| شیرِ مادر مِلے نقشِ فادر ملے |
| کم سِنی آ گئی صَوت و اطوار میں |
| دیکھ کر اُن کو ماں باپ یاد آ گئے |
| پھول کھلنے لگے دشت و گلزار میں |
| گرمئی لمس سے دھڑکنیں بڑھ گئیں |
| کتنی سچّائی ہے بھائی کے پیار میں |
| وہ سلامت رہیں میرے سر پر سدا |
| ہے یہی التجا تیرے دربار میں |
| اُن کی چاہت ہے کچھ ایسی نایاب جو |
| نا دکاں پر ملے گی نہ بازار میں |
| اُس سے بڑھکر کہیں مجھ پہ احسان ہے |
| ڈھونڈتے ہیں جسے لوگ سرکار میں |
معلومات