| اک کسک ایسی بھی ہے جس کی دوا کوئی نہیں |
| بیکسوں کا اس جہاں میں ہم نوا کوئی نہیں |
| وہ پرانا ہو یا کوئی بھی نیا قانون ہو |
| اس کی زد میں ان غریبوں کے سوا کوئی نہیں |
| بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور دیکھئے |
| سینکڑوں مرتے ہیں آدم پر دوا کوئی نہیں |
| قمقموں سے جگمگاتے ہیں کلیسا کے کلاک |
| دُور کُٹیا میں مگر یارو دیا کوئی نہیں |
| اطلس و کمخواب پر واللہ نہیں ہوں معترض |
| نیم عریاں جسموں پر سُن لو قبا کوئی نہیں |
| کٹ گئی شامِ غریباں کی طرح نقدِ حیات |
| زندگی کی کلفتوں میں ہم نوا کوئی نہیں |
| گھر سے نکلا تھا دوائی کے لئے مجبور باپ |
| کہہ گیا ہاتف کہ مرنے کی دوا کوئی نہیں |
| کس طرح ہم دونو کا ہو سکتا ہے جانم ملاپ |
| منزلیں گمنام ہیں اور راستہ کوئی نہیں |
| چھوڑ کر گرداب میں رُو پوش ہیں سب ناخدا |
| دُور تک ویرانیاں ہیں رہ نما کوئی نہیں |
| جب بھی کوئی مسئلہ در پیش ہو کرتا ہوں یاد |
| کون سلجھائے کہ اب منظور شاہ کوئی نہیں |
| اور کچھ باقی نہیں شہرِ خموشاں کے سوا |
| خود ہی ڈھونڈو منزلیں بانگِ درا کوئی نہیں |
| رونے دھونے کے سوا اب کچھ نہیں باقی امید |
| میکدے ویران ہیں کہ اُٹھ گئے ساقی امید |
معلومات