| وہ منزلیں اپنی پا بھی گئے ہم راہ میں دست بہ داماں ہیں |
| نے جوش و جنوں نے عقل و خرد کس پستئی فکر کا ساماں ہیں |
| موجوں کے تھپیڑوں کو چھوڑو کچھ ساحل پر بھی ڈوب گئے |
| کچھ اہلِ جنوں کچھ دِل والے ہر حال میں خنداں و رقصاں ہیں |
| کیوں ایسی راہ پہ چل نکلے جس راہ پہ سنگِ مِیل نہ تھے |
| منزل کے نشاں معدوم ہوئے اب ہر بن خارِ مغیلاں ہیں |
| تم ساتھ رہے تو غنچہ و گُل کچھ اور بھی نکھرے نکھرے تھے |
| تم چھوڑ گئے تو قوس و قزح ہر روپ میں گریاں گریاں ہیں |
| گو نظمِ تنفّس ڈُوب رہا پر حرصِ زمانہ مِٹ نہ سکی |
| اِک مَیں ہی نہیں اس خاک تلے اکثر ہیں کہ چاک گریباں ہیں |
معلومات