| جانے والے تو چلے جاتے ہیں ان کو کیا خبر |
| اہلِ خانہ یاد کرتے ہیں انہیں شام و سحَر |
| کون اب راتوں کو اُٹھ کر ہاٹھ پھیلائے گا ماں |
| کون میرے درد پر روتا رہے گا عمر بھر |
| تجھ کو جانا ہے تو جا پر لے جا اپنی یاد بھی |
| تیری یادوں نے بنایا مجھکو امّی نوحہ گر |
| ایک شب میں نے کہا تھا سر میں تھوڑی درد ہے |
| کروٹیں لیتی رہیں سوئی نہ امّی رات بھر |
| ماں کی ممتا سے نا یا اللہ کوئی محروم ہو |
| وہ لڑکپن ہو جوانی ہو یا کوئی رہگزر |
| کہہ دو طوفانوں سے ماؤں سے نہ ٹکرانا کبھی |
| آندھیوں سے مائیں لڑ جاتی ہیں بے خوف و خطر |
| چھوڑ کر قصر و محل جانا پڑا زیرِ زمیں |
| اِن سے بھی اچھّا ہو شاید یہ ترا مِٹّی کا گھر |
| حامئی و ناصر رہے تیرا خداوندِ جلیل |
| صبح کے تارے سے بھی پاکیزہ ہو تیرا سفر |
| سارے رشتے ہی مقدّم ہیں مگر خواجہ امید |
| ماؤں کے جانے سے سُونا لگتا ہے میکے کا گھر |
معلومات