| بھُولنا چاہتا ہوں لیکن اتنا بھی آساں نہیں |
| جتنے شکوے ہیں مرے لفظوں میں اتنی جاں نہیں |
| مَیں یہی سمجھا تھا اُن سے ختم ہوں گی رنجشیں |
| پر مرا ادراک ہے اب اس کے بھی امکاں نہیں |
| جس نے بچّوں کے لئے بے لَوث قربانی نہ دی |
| وہ ولی اللہ تو ہو سکتی ہے لیکن ماں نہیں |
| میری تقصیرات پر ہر لحظہ ہے جس کی نظر |
| شکر ہے اللہ کا رضوان ہے انساں نہیں |
| بے وفائی کا وتیرہ جاں نثاروں پر ہے عام |
| اس لئے اب دل مرا گریاں نہیں حیراں نہیں |
| بے تکلّف بات ہو گی حشر میں یزداں سے بھی |
| سُنتے آئے ہیں وہاں حاجب نہیں درباں نہیں |
| دُخترِ حشمت علی پر شہر میں طوفاں اُٹھا |
| مفلس و نادار پر آندھی نہیں طوفاں نہیں |
| آؤ اے امید ویرانے میں جا سنیاس لیں |
| تیرے درد و رنج کا شاید یہاں درماں نہیں |
| بی۳ |
معلومات