| آنسوؤں کا کام ہے رونا تو رونے دو انہیں |
| تھک کے رک جائیں گے داغِ دل تو دھونے دو انہیں |
| ایسے بھی کچھ لوگ ہیں جو عمر بھر سوئے نہیں |
| اب خدا کے واسطے قبروں میں سونے دو انہیں |
| توڑ دی رشتوں کی مالا سب رقیبوں نے تو کیا |
| وہ جو کچھ ہمدرد ہیں مِل کر پرونے دو انہیں |
| سب نے مرنا ہے مگر اتنا دُکھی کوئی نہ ہو |
| بچ گئے ہیں تیر کچھ وہ بھی چبھونے دو انہیں |
| تر تو پانی سے بھی ہو جانی تھی میری آستیں |
| آنسوؤں سے ہے تو کیا ، بے شک بھگونے دو انہیں |
| اب پرانے دھوکوں سے جنتا بہلنے کی نہیں |
| تازہ زنبیلِ شرر سے کچھ کھلونے دو انہیں |
| یاد کرتا ہوں تجھے صبح و مسا شام و سحر |
| روک کر اشکوں کو لفظوں میں سمونے دو انہیں |
| اب مجھے منظور ہے ساحل ہو یا گرداب ہو |
| ڈوبنے والا نہیں بے شک ڈبونے دو انہیں |
معلومات