| اُس نے بھُلا کے مجھ پہ یہ احسان کر دیا |
| سفرِ حیات کو بہت آسان کر دیا |
| لگتی رہیں ہر ایک سے خوش گپیاں مگر |
| دیکھا مجھے تو جان کر انجان کر دیا |
| کوٹھی بنائی کہنے لگے آپ کے لئے |
| پھر مجھ کو واں پہ حاجب و دربان کر دیا |
| پورے جہاں میں دھوم تھی جس دیس کی کبھی |
| اس کو غنیمِ شہر نے ویران کر دیا |
| یہ بھی تو ایک فلسفہ دانی کا ہے فتور |
| آدم کی باقیات کو حیوان کر دیا |
| تن کی ضرورتوں کا جب دارو نہ ہو سکا |
| مجبور ماں نے تن کا بلیدان کر دیا |
| کتنا عظیم آدمی ہے وہ جو بارہا |
| جس کو غریب دیکھا اسے دان کر دیا |
| انسان سے خطا ہوئی نسیان ہی تو ہے |
| جب ارتقا ہؤا اسے انسان کر دیا |
| محسن ہے میرا آج بھی جس نے کبھی امید |
| ہر چیز کو مرے لئے قربان کر دیا |
معلومات