| مسحور ہو گیا ہوں اک قاتل نگاہ کا |
| ہنستا ہوں اپنے آپ پر رُتبہ ہے شاہ کا |
| خوابوں میں ہے وجود اسی مہر و ماہ کا |
| اب انتظار کون کرے سال و ماہ کا |
| بیٹھی ہے انتظار میں بیٹی غریب کی |
| پر کون ہے جو خرچ اٹھائے بیاہ کا |
| بیتی ہو جس کی حسرتوں میں زندگی سدا |
| اس پر عبث الزام ہے اِثم و گناہ کا |
| پگلے ہیں پتھروں کے دل ماں کی بکاؤں سے |
| جب منتظر ہو بے کفن اک خیر خواہ کا |
| پڑھتے ہیں جس زمین پر اس کے قدم امید |
| اس راہ پر نثار ہے دل تیری چاہ کا |
معلومات