مجھ سے عجیب ہاتھ مرا پِیر کر گیا
میری زمیں پہ اپنا گھر تعمیر کر گیا
رہتا ہے اس گلی میں جسے ڈھونڈتے ہیں آپ
آ کر کسی نے موڑ پے تحریر کر دیا
ٰذی مرتبہ حسین تھے ذی مرتبہ رہے
جو کوئی بھی نہ کر سکا شبّیر کر گیا
ہے اختیار شیخ کو جب چاہے جس جگہ
ہر آنے جانے والے کی تکفیر کر گیا
وہ جس کے ساتھ راز کی باتیں کہیں سنیں
وہ ہر قدم پہ راہ میں تشہیر کر گیا
ہر شخص سے امید وفا کی نہ رکھ امید
یہ راز میرے کان میں راہ گیر کر گیا

0
166