Circle Image

ڈاکٹر طارق انور باجوہ

@TariqBajwa

ہر زندگی کے موڑ پہ تقویٰ رہے شعار
قرآں کا حکم ہے یہی آیا جو بار بار
تقویٰ کی راہ کہتے ہیں باریک ہے بہت
چلنا ہے پُل صراط پہ جس کی ہے تیز دھار
دنیا کی ہر قدم پہ کشش کھینچتی تو ہے
ترجیح دِیں کو دیتا ہے بندہ جو ہوشیار

0
نہ عزّت نہ دولت نہ شہرت ہے پیاری
اطاعت خلافت کی ہے سب پہ بھاری
عزیز اپنے عَہدوں کی ہے پاسداری
نبھائیں گے بیعت کی ہم ذمّہ داری
خلافت کا مطلب اطاعت گزاری
ہماری خلافت پہ ہے جان واری

0
تکبّر چھوڑ دیتے ، عاجزی کی کچھ نمُو ہوتی
نہ یوں ناراض ہو جاتے ، اگر نرمی کی خُو ہوتی
تعصّب طاق پر رکھ کر اگر آتے وہ میداں میں
محبّت کی زباں میں کچھ ہماری گفتگو ہوتی
ہمیں کہتے تو ملنے کے لئے خود ہم چلے آتے
ہمیں بھی شوق تھا کچھ بات اُن سے رُو برو ہوتی

0
1
طاہر ہے فخر تجھ پہ ، شہادت پہ تیری ناز
جاں تُو نے دی ہے فرض نبھاتے ہوئے فراز
لکھنے کو تیرے بارے میں اُٹھا ہے جب قلم
جانا ہے تیرے بارے میں تو ، دل ہوا گُداز
اب تیری دوستی سے وہ محروم ہو گئے
محمود اب حزیں ہیں کہ ، رخصت ہوا ایاز

0
2
بلاؤں میں بنا تھا جو سہارا یاد تو ہو گا
گِھرے ہو دشمنوں میں ایک پیارا یاد تو ہو گا
بھٹک جائیں جو صحرا میں تو خضرِ راہ سا کوئی
سجھاتا ہے جو رستہ وہ ستارا یاد تو ہو گا
کسی کا حسن بن کر نقش بٹ جاتا ہے اجزا میں
مگر چہرہ اک ایسا بھی ہے سارا یاد تو ہو گا

0
3
“کچھ خواب خریدے تھے آنکھوں کی تجارت سے”
محروم ہوئے لیکن یوسف کی زیارت سے
دشوار تو ہوتا ہے لفظوں میں بیاں کرنا
پڑھ لیتے ہیں لوگوں کو چہروں کی عبارت سے
پہلا سا طبیعت میں ہیجان نہیں باقی
جذبات پگھلتے تھے سانسوں کی حرارت سے

0
2
کچھ خواب خریدے تھے آنکھوں کی تجارت سے
محروم ہوئے لیکن یوسف کی زیارت سے
دشوار تو ہوتا ہے لفظوں میں بیاں کرنا
پڑھ لیتے ہیں لوگوں کو چہروں کی عبارت سے
پہلا سا طبیعت میں ہیجان نہیں باقی
جذبات پگھلتے تھے سانسوں کی حرارت سے

0
1
عید کا دن ہے گلے تم کو لگا لُوں آؤ
پیار کے رشتے نئے تم سے بنا لوں آؤ
روز آ جاتے ہو سپنوں میں ستانے تو مجھے
اپنی آنکھوں میں تمہیں پھر سے بسا لوں آؤ
محو ہو جاؤ نہ یادوں سے مری اے ہمدم
دل میں ارمان نئے پھر سے جگا لوں آؤ

0
2
مبارک عید کی خوشی دعا کا استجاب ہو
قدم قدم ہو سرخرو تمہارا جب حساب ہو
تمہارے ساتھ عمر بھر رہیں جو کیں عبادتیں
علوم ہوں نصیب جن کی رہنما کتاب ہو
نگر نگر پھرے مگر کہیں ملا نہ وہ گہر
جو چندے آفتاب ہو جو چندے ماہ تاب ہو

0
2
سُنو معرفت کا سمندر ہے قرآں
کہ اُس وَہ نبی کا سراسر ہے قرآں
اسے ہر مسلماں کو لازم ہے پڑھنا
شریعت کے گھر کا کُھلا در ہے قرآں
اسے پڑھنے والا اگر متّقی ہو
ہدایت میں سب کی برابر ہے قرآں

0
4
یوں تو ہلالِ عید ہے لایا پیامِ عید
پر سوچ میں ہیں کیسے کریں اہتمامِ عید
چہروں پہ مسکراہٹیں آئیں کہ شامِ عید
لازم ہے کچھ تو ہم بھی کریں احترامِ عید
رب کی رضا میں خوش ہوئے ہیں سب سے بڑھ کے یہ
ہے وقت کا خلیفہ ہمارا امامِ عید

0
2
رہتا ہے دردِ دل یہ بتایا نہیں کبھی
بے صبر بھی نہیں ہوں کراہا نہیں کبھی
بیٹھے ہو یہ سمجھ کے تم اکتا گیا ہوں میں
تم نے مرے مزاج کو سمجھا نہیں کبھی
ہاتھوں سے اپنے پیارے کئے دفن ہیں مگر
نفرت سے قاتلوں کو بھی دیکھا نہیں کبھی

0
2
سب کو کب ہانکا جاتا ہے ، صاحب ایک ہی سانٹے سے
تبدیلی ہوتی ہے ان میں ، ڈھونڈیں لوگ جو چھانٹے سے
کچھ اصلاح کی نیّت سے کہہ دو تو غصّہ کر جائیں
سنتے کب ہیں پیار سے وہ ، ناراض بھی ہوں وہ ڈانٹے سے
ان کو بولو کر کے عمل ، تعلیم پہ خود بھی دکھلائیں
دوجا گال کریں نا آگے ، ڈر گئے ایک پہ چانٹے سے

0
2
سب کو کب ہانکا جاتا ہے ، صاحب ایک ہی سانٹے سے
تبدیلی ہوتی ہے ان میں ، ڈھونڈیں لوگ جو چھانٹے سے
کچھ اصلاح کی نیّت سے کہہ دو تو غصّہ کر جائیں
سنتے کب ہیں پیار سے وہ ، ناراض بھی ہوں وہ ڈانٹے سے
ان کو بولو کر کے عمل ، تعلیم پہ خود بھی دکھلائیں
دوجا گال کریں نا آگے ، ڈر گئے ایک پہ چانٹے سے

0
4
تُو جو چاہے تو بنا دے پیار کے قابل مجھے
چاہتا ہوں یہ کہ ہو تقویٰ عطا کامل مجھے
ہے بِلا شک زندگی بے بندگی شرمندگی
ہوں تِرا بندہ کیا ہے عشق نے گھائل مجھے
حسن اس کا پوچھتے ہو اس سے اندازہ کرو
ایک نظّارہ ہی اس کا کر گیا بسمل مجھے

0
2
1۔4۔2024/17۔7۔2022
غزل
کہا کسی نے ہوئے ظلم کا سبب پتھر
مگر تھا دل کا اندھیرا، نہ تیرہ شب پتھر
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب پتھر

0
3
کہا کسی نے ہوئے ظلم کا سبب پتھر
مگر تھا دل کا اندھیرا نہ تیرہ شب پتھر
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب پتھر
جو وہ نہ مل سکا ان کو تو سجدہ کرنے کو
پجاری لے گئے تھے اس کے گھر کے سب پتھر

0
3
17۔7۔2022/1۔4۔2024
غزل
کہا کسی نے ، ہوئے ظلم کا سبب ، پتھر
مگر تھا دل کا اندھیرا، نہ تیرہ شب ، پتھر
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب ، پتھر

0
2
فنائے ہستیٔ انساں کب اختتامِ حیات
وہاں پہ منتظر اک اور ہے نظامِ حیات
کہاں گئی ہے پتہ ہی نہیں چلا مجھ کو
ابھی تھی صبح ابھی ہو گئی ہے شامِ حیات
تمام عمر گزاری تو جی نہیں پائے
نہ کر سکے ہمیں کرنا تھا اہتمامِ حیات

0
1
اُس کی ہستی کے بارے اٹھاؤ سوال
نقش فطرت میں ہے ڈھونڈتے ہو جمال
اپنی کوشش سے کیسے پہنچ پاؤ گے
فضل اس کا ہوا تو وہ مل جائے گا
سو ضروری ہے کچھ کام ایسے کرو
تم سے راضی ہو رحم اس کا تم کھینچ لو

0
2
ایک دن اور ہے گزرا مری تنہائی کا
وقت ملتا ہی نہیں تجھ سے شناسائی کا
شعر کہہ لیتا ہوں جب یاد تری آتی ہے
کچھ مجھے شوق تو ہے قافیہ پیمائی کا
میں بیاں کر دوں کبھی ان کے خیالات اگر
مجھ پہ الزام وہ دیں حاشیہ آرائی کا

0
2
غزل
عدو ، مایوس صورت دیکھ کر کَس دے نہ آوازہ
کسی نے کھٹکھٹایا ہے ترا در ، کھول دروازہ
گناہوں سے مرے بڑھ کر ، تری بخشش ، دریں چہ شک
تری رحمت کا کر سکتا ہے کیسے کوئی اندازہ
الٰہی بخش دے میری خطائیں ، جانتا ہے تُو

0
3
1۔2۔2023/28۔3۔2024
خزاں ہے لیکن ،
بہار آئے گی ، آس رکھنا
قریب آنے نہ دینا اِس کو
ہمیشہ دل سے جو دور رکھنا
تو ، یاس رکھنا

0
5
تیزی سے آسماں کی طرف جا رہے ہیں ہم
نغمے خدا کی حمد کے جو گا رہے ہیں ہم
احمد کے ہاتھ سے لگے جو پھول جا بجا
خوشبو اسی کی ہے جسے بکھرا رہے ہیں ہم
پودے لگائے پیار کے خود اُس نے ہاتھ سے
برکت اسی کی ہے یہ ثمر کھا رہے ہیں ہم

0
5
عدو آنکھوں کے تیری سامنے ڈھاتا قیامت ہے
اگر چاہے تو اس کو روک دے تجھ کو یہ طاقت ہے
مرے مولا ترے ہاتھوں میں عزّت اور ذلّت ہے
تو پھر کیوں غیر کے ہاتھوں ہوئی رُسوا یہ ملّت ہے
تباہی میں تری امّت کی شامل ہے تری مرضی
سمجھ آتا نہیں اس ظلم کی کیونکر اجازت ہے

0
2
بیماری دل کی دیکھ بھی پاؤ گے یا نہیں
گھر میں طبیب اب بھی بلاؤ گے یا نہیں
کب تک رہو گے ضدّ و تعصّب میں ڈوبتے
جب اُس کا حکم آئے گا جاؤ گے یا نہیں
تقدیر ایک دن تمہیں بے بس کرے گی جب
سر اس کے سامنے بھی جھکاؤ گے یا نہیں

0
2
رواں اپنی رحمت کا میزاب کر دے
سبھی تشنہ روحوں کو سیراب کر دے
تلاشِ ہدایت میں ہوں بے قرار اب
دل اس جستجو میں یوں بے تاب کر دے
منوّر خرد ہو ، نگہ دور بیں ہو
دلوں پر عیاں اپنا مہتاب کردے

0
2
راگ الفت کا چھیڑ آدھی رات
اپنے دُکھڑے سہیڑ ، آدھی رات
گر کے سجدے میں گریہ زاری کر
تُو کواڑوں کو بھیڑ ، آدھی رات
وہ جو دل میں گناہ راسخ ہیں
ان کو جڑ سے اکھیڑ ، آدھی رات

0
2
یہی دستور سنتے آئے ہیں اب تک زمانے کا
گرا جو آشیاں سوچے گا واپس کون رکھنے کا
نہیں اس کے سوا حق نقطہ چینی کا کسی کو بھی
وہی لے امتحاں ہو تجربہ جس کو پرکھنے کا
کٹہرے میں وہی لائے جو دامن صاف رکھتا ہو
نہ ہو امکان بھی جس پر کسی انگلی کے اٹھنے کا

0
2
یہ ممکن نہیں کوئی توبہ کرے
نہ جب تک خدا اُس کو توفیق دے
مبارک جو ہاتھ اس کا ہی تھام لے
سکینت کی وادی میں اترا کرے
خدایا مرے سب گنہ بخش دے
نہ ہو یہ، ترے سامنے دل ڈرے

0
6
“شدّت سے ہو ترا مہِ صیام انتظار”
شدّت سے ہو ترا مہِ صیام انتظار
تجھ میں خدا سے رابطہ ہوتا ہے استوار
رحمت ہو پہلے عشرے میں دوجے میں مغفرت
پائے جو تیسرا کہاں چھوتی ہے اس کو نار
یہ امتحان صبر کا اس میں سکوں نہاں

0
3
سارے اپنے ہیں کب پرائے ہیں
سب یہاں نُور میں نہائے ہیں
آج محفل میں خوب رونق ہے
شعر پیارے سنانے آئے ہیں
سب سے مل کر خوشی ہوئی ہم کو
کیسا کیسا کلام لائے ہیں

0
3
خاموش تھے جو نیک مرے کام دیکھ کر
گویا ہوئے ہیں گونگے بھی دُشنام دیکھ کر
بہرے بھی ناچنے لگے سُن کر نہ جانے کیا
گنجوں نے سر منڈا لئے حجّام دیکھ کر
پامال آدمی ہوا ہے آدمی کے ہاتھ
حیرت ہے خوش بھی ہو غم و آلام دیکھ کر

0
3
خاموش تھے جو نیک مرے کام دیکھ کر
گونگے ہیں گویا ہو گئے بدنام دیکھ کر
بہرے بھی ناچنے لگے دُھن سُن کے گیت کی
گنجے نے سر کھُجا دیا حجّام دیکھ کر
پامال آدمی ہوا ہے آدمی کے ہاتھ
حیرت ہے خوش بھی ہو غم و آلام دیکھ کر

0
3
بن مانگے دے رہا ہے خدا بار بار دے
جب جس کی چاہتا ہے وہ قسمت سنوار دے
اس کے حضور جھک کے کریں التجائیں جو
کرنے کو سارے کام فرشتے اتار دے
واجب ہے اس کا شکر کرے بندہ ہر گھڑی
دیتا ہے ایک دکھ تو وہ نعمت ہزار دے

0
3
غزل
علاجِ دردِ دل کرنے کو آئے ہیں مسیحا تو
مریضِ عشق بھی تیّار تھے ہونے کو اچھا تو
عدو کو مات دے کر زندگی مُردوں کو بخشی ہے
مقابل پر کوئی آنے کو جو تیّار ہوتا تو
اسے اخلاق سے دل جیتنے تھے اور محبّت سے

0
5
لوٹ کر وقت نہ آیا تو مجھے یاد آیا
ہو گیا اپنا ، پرایا ، تو مجھے یاد آیا
بھول جانا اُسے آساں تو نہیں تھا لیکن
اس نے جب یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
ابتدا کیسے ہوئی عشق میں کچھ یاد نہیں
پھر سبق اس نے پڑھایا تو مجھے یاد آیا

0
5
جہاں میں ہم کہیں رہیں ہماری آب و تاب ہو
ہمارے ساتھ جب چمن میں کِھل رہا گلاب ہو
محبّتوں کی سرزمیں میں روشنی ہو ہر جگہ
کہیں وہ آفتاب ہو کہیں وہ ماہ تاب ہو
ملیں ہمیں رفاقتیں محبّتیں عنایتیں
کتاب حکمتوں سے پُر ہو پیار جس کا باب ہو

0
3
تیغ و تبر کو چھوڑ کر ہم نے قلم پکڑ لیا
دینِ خدائے مصطفٰے کا جو علَم پکڑ لیا
نورکے پیچھے چل پڑے بھٹکیں گے کیسے ڈر نہیں
اس کے ہی پیروکار تھے اس کا قدم پکڑ لیا
دوش نہ دو کہ عشق میں شاہِ عرب پہ ہم فدا
اس کی وفا میں دامنِ شیخِ عجم پکڑ لیا

0
6
دیکھیں انہیں تو صاحبِ حسن و جمال ہیں
سیرت میں کچھ کمی نہیں ہے با کمال ہیں
گر زائچہ نکال کے دیکھیں تو با نصیب
مخلص ہیں مہربان ہیں اور خوش خصال ہیں
محفل میں کھل کے بات جو ان سے نہ ہو سکی
ملنے کو آئے ہیں بڑے روشن خیال ہیں

0
3
اب کس کو حال دل کا بتایا کرے کوئی
جب ایسے یاد آ کے ستایا کرے کوئی
وہ آگئے ہیں اب تو ذرا کھل کے سامنے
سپنوں سے دل کو اپنے سجایا کرے کوئی
چھلنی ہوئی ہے روح اسے دُکھ میں دیکھ کر
ایسے میں غم کو میرے بھلایا کرے کوئی

0
3
حق کو حق کہنے کی ہے باقی جسارت رہ گئی
زندگی کی زندگی میں کچھ حرارت رہ گئی
گو فرشتوں نے کیا تحریر سب نامہ مرا
خامشی سے درد سہنے کی عبارت رہ گئی
دشمنوں سے آج تک ٹوٹا نہیں ہے حوصلہ
امتحاں لینے کو باقی کیا مہارت رہ گئی

0
4
جانتی تھی کیا براہیمی نظر اِس راز کو
آگ ہو جائے گی ٹھنڈی دیکھ کر جانباز کو
اب تو اس کی ہر ادا پہلے سے بڑھ کر ہے حسیں
عشق نے صیقل کیا ہے حسن کے انداز کو
گُفتگو اس سے کئے بِن رہ نہ سکتے تھے کبھی
اب تو بتلاتے نہیں وہ درد بھی ہمراز کو

0
4
وقت کی چکّی میں پِس کر ہم کہیں کھو جائیں گے
ہم بھی کیا بیتے زمانے کی طرح ہو جائیں گے
کیوں ترقّی کی طرف بڑھتے نہیں اپنے قدم
رُک گئے تو ہاتھ اپنی جان سے دھو جائیں گے
ہم فقط یہ کہہ رہے ہیں، تم بھی جینا سیکھ لو
زندہ رہ کر پھر مرو، ہو کر فنا تو جائیں گے

0
4
فرشتے کرنے انہیں خود سلام آتے ہیں
جو باندھ کر لئے ساماں تمام آتے ہیں
کیا گیا جنہیں مامور رہنمائی پر
جہاں میں کر کے خدا سے کلام آتے ہیں
انہیں فساد کے ملزم قرار دیتے ہو
وہ جن کو امن کے رب سے پیام آتے ہیں

0
6
مضمون کوئی کیسے سرِ خامہ آئے گا
سوچا تو ذہن میں کوئی افسانہ آئے گا
جو آپ نے لکھا وہ پسند آئے یا نہ آئے
تعریف میں کوئی نہ کوئی نامہ آئے گا
آنے سے آپ کے بھی جو رونق نہیں ہوئی
محفل میں اور کیا کوئی ہنگامہ آئے گا

0
3
عجیب کیوں تجھے لگتا ہے بولتا ہوں میں
کہ میٹھا رس ترے کانوں میں گھولتا ہوں میں
میں غور و فکر جو کرتا ہوں کائنات پہ خود
بتائے راز ہیں اس نے جو کھولتا ہوں میں
کسی کی آنکھوں سے پیتا ہوں مے جو عرفاں کی
نشے میں اُڑ کے فضاؤں میں ڈولتا ہوں میں

0
3
ہنس کے دل درد محبّت کا یہ سہہ جائے تو
تجھ سے ہے پیار وہ چپکے سے جو کہہ جائے تو
ذکر لب پر ہی نہ آیا ہو مگر وہ جانے
دل میں ہو پیار مگر دل میں ہی رہ جائے تو
ہو کے دیوانہ صدا دے نہ کوئی صحرا میں
جذبۂ عشق فقط اشکوں میں بہہ جائے تو

0
5
جنوں میں تیرے میں گھر کا طواف کرتا ہوں
گناہ تیرے یہ کہہ دے معاف کرتا ہوں
تُو جانتا ہے کہ نادِم ہوں میں گناہوں پر
بہا کے اشک جو دل پاک صاف کرتا ہوں
میں ہر قدم پہ ترا شکر تیری حمد کروں
کہ اختیار یہ رستہ مَطاف کرتا ہوں

0
4
الزام آپ ہم نے ہی ، پھر اپنے سر لیا
انصاف کا مطالبہ ہم نے نہیں کیا
اس کو گماں نہ ہو کہیں بھولے ہیں ہم اسے
دامن ہوا تھا چاک جو اب تک نہیں سیا
کچھ عدل کی امید رکھی ہی نہ تھی کبھی
سُقراط نے بھی زہر کہاں شوق سے پیا

0
6
قدرتِ اوّل کے بعد آئی خلافت کی بہار
تھی خبر یہ بھی کہ اب آتی رہے گی بار بار
دوسری قدرت مسیحا کی خلافت کا ظہور
فیض پائیں گے خلیفہ پر ہوا جن کا مدار
لوگ سو باتیں کریں ہم کو خلافت ہے عزیز
ہم ہوئے اس پر فدا ہے جان و دل اس پر نثار

0
5
مہ و انجم سے تاریکی جہاں کی دُور ہوتی ہے
دلوں کو چاندنی روشن کرے تو نور ہوتی ہے
ہے ظرف اپنا کہاں تک ، دیکھ لینا یہ ضروری ہو
اگر ہو وصل کی خواہش ، تو منزل طُور ہوتی ہے
انہیں اس سے غرض کیا چاند نکلا یا نہیں نکلا
مقدّر میں سدا جن کے شبِ دیجُور ہوتی ہے

0
6
جب فقط ڈھانے کو مسجد کی عمارت رہ گئی
کون کہتا ہے کہ ایماں کی تجارت رہ گئی
ہے مگر ان کو غرض کرسی پہ اب بیٹھے گا کون
سرخرو ہو کر بھی کس کس کی وزارت رہ گئی
ایک دوجے کے لئے عبرت کا باعث تو ہوئے
ہاں مگر حق بات کہنے کی جسارت رہ گئی

0
4
غزل
جس کے قبضے میں ہیں دل ، ایسا وہ ساحر بھی ہے
سانپ کو رسّی بنانے کا وہ ماہر بھی ہے
ہنستے ہنستے وہ رُلا کر ہے دلوں کو دھوتا
وہ جو اطہر بھی مطہّر بھی ہے طاہر بھی ہے
وہ مسیحا بھی ہے استاد بھی ہے عالم بھی

0
5
سادہ پُر حکمت کلام ایجاز تھا
حسن اور احسان کا غمّاز تھا
اس کے بچپن کا ابھی آغاز تھا
نیک فطرت کا ہوا دمساز تھا
گر چہ حکمت سے بھرا انداز تھا
سچ کی بچپن سے رہا آواز تھا

0
6
غزل
جاں غزل میں ہو تو سننے کا مزہ ہوتا ہے
ورنہ اک شعر کا سننا بھی برا ہوتا ہے
پاؤ شیرینی نہ خوشبو نہ ملے ذائقہ ہی
کچا پھل توڑ لیا جائے تو کیا ہوتا ہے
ہم جو سنتے تھے کہ جاتے ہیں سبھی ہوش و حواس

0
5
آزاد نظم
خزاں ہے لیکن ، بہار آئے گی ، آس رکھنا
قریب آنے نہ دینا اس کو
ہمیشہ دل سے جو دور رکھنا
تو یاس رکھنا
بحال اپنے حواس رکھنا

0
4
مارے پتھر جو پاک دامن ہے
ورنہ ، انصاف محض بھاشن ہے
ہاتھ کاٹو جو چور کے، دیکھو
گھر میں موجود اس کے راشن ہے
موسلا دھار برشِگالِ نور
ابر برسا ہے جیسے ساون ہے

0
4
روگ بیٹھا ہے جب سے پال کوئی
پوچھتا کب ہے اس کا حال کوئی
وہ جو طیّب بھی ہو حلال بھی ہو
یوں ہی ملتا نہیں ہے مال کوئی
جس کو مطلب نہ ہو کوئی تم سے
کون کرتا ہے دیکھ بھال کوئی

0
4
اس کائنات میں کوئی دِکھتا نہیں شگاف
تحقیق کرنے والے بھی کرتے ہیں اعتراف
دعوٰی ہے خود بخود بنے ارض و سما مگر
اب حق کے سامنے تو ٹھہرتی نہیں یہ لاف
قرآں نے جو بھی علم دیا کائنات کا
ہر نقطہ جو بتایا ہے ثابت ہوا وہ صاف

0
5
کیسے تم کو فقیر گردانیں
تم کو اچھی طرح سے پہچانیں
تم فقط نیند چھین سکتے ہو
خواب چھینو تو ہم تمہیں مانیں
ناز کرتے ہو اپنی نفرت پر
بار اُٹھاؤ جو پیار کا جانیں

0
8
جواب دے دے تو میں ترا ہوں
تُو چاہتا ہے
میں تیری آنکھوں میں خواب بھر دوں
مجھے مگر تُو نے اپنی آنکھوں میں کب جگہ دی
ذرا بتا دے
تُو چاہتا ہے

0
5
حرفِ آخر ہے کہہ دیا جو بس
میں نے ہونا نہیں ہے ٹس سے مَس
تم کو میرے کلام پر شک ہے
وہ جو کانوں میں گھولتا ہے رس
ہے ادب سے مرا تعلّق یوں
ڈگریاں پڑھ کے لیں برس ہا برس

0
6
جلا کر کوئی دل دیا کر دیا
ہے نور اس جہاں کو عطا کر دیا
عبادت کی ہم نے کمی جب نہ کی
جسے ہم نے پوجا خدا کر دیا
اچٹتی سی ہم پہ نظر ڈال کے
یہ تم نے ہمیں کیا سے کیا کر دیا

0
5
اے خدا، اے مرے محسن ، اے مرے پیارے سجن
تجھ سے ملنے کی تڑپ ، کیسی ہے یہ دل میں لگن
حسن و احسان ترا دیکھ کے واری جاؤں
تجھ پہ قربان ہوا جائے مرا تن من دھن
ذرّہ ذرّہ تری قدرت کا ہے شہکار بنا
دیں گواہی تری ، گردش میں جو اجرامِ کُہن

0
17
ہم کھرے لوگ ہیں سیدھے سادھے
منہ پہ ہی کہہ دیں کہ سچ کڑوا ہے
سچ ہے یہ باندھتا ہے سچ ہی ہمیں
جھوٹ ہی نے تو دیا لڑوا ہے

0
4
عر
یوں تو پوشیدہ تری ذات ہے پر سرو و سمن
دیں گواہی تری ذرّات بھی اور بھاری بدن
تجھ پہ شاہد ہیں فلک، چاند، ستارے ، سورج
تیری تخلیق زمیں ، دشت و چمن ، کوہ و دمن
آنکھ بینا ہو تو ہر سمت دکھائی تُو دے

0
4
ہم جہاں ہوتے ترا نام پکارا کرتے
تیرے بن جینا کہاں ہم بھی گوارا کرتے
زخم ہر روز ترے نام پہ سہتے گزری
ضبط ہر دور میں ہم درد کا دھارا کرتے
جان دے دیتے ہیں وہ عہدِ وفا کی خاطر
مرد میدان میں اترے نہیں ہارا کرتے

0
4
تیغ چھڑا کے ہاتھ سے تُو نے قلم عطا کیا
حق کے لئے ہی یہ قلم لکھتا رہے مرے خدا
مکر و فریب کو سدا آئینہ ہے دیا دکھا
سچ کو سدا ہے سچ کہا جھوٹ کو ڈر رہے مرا
تیغ و تفنگ چھوڑ کر امن کی رہ بتائے گا
میرے نبی نے تو پتہ مہدی کا تھا یہی دیا

0
7
سبق جو فطرتاً توحید کا سکھا یا ہے
تو کائنات کو بھی رہنما بنایا ہے
رہے نہ کوئی بھی امکان تیری دوئی کا
نہ تیرا آئینے میں عکس ہے نہ سایہ ہے
کہاں تھی وسعتِ دل کے سوا جگہ تیری
اسی لئے ترا جلوہ یہاں بسایا ہے

0
6
وہ شخص جان سے پیارا تمہیں ہزار لگے
کرا کے آیا کہیں سے ہے وہ سنگھار لگے
ہمیشہ وقت کا دھارا تو تیز چلتا ہے
اسے غرض نہیں ڈوبے کوئی یا پار لگے
سمجھ میں آیا ہمیں واپسی کا ہے یہ سفر
گلوں بھری بھی اگر راہ خار دار لگے

0
8
اپنے جذبات کی شدّت کو چھپاؤں کیسے
چند لمحات کی فرقت کو بِتاؤں کیسے
سرد راتوں میں ترے پیار کی گرمی پہنچی
میں ترے قرب کی حدّت کو بھلاؤں کیسے
ہر کڑے وقت میں تُو نے ہی تو دلداری کی
میں ترا چھوڑ کے در جاؤں تو جاؤں کیسے

0
8
منفرد اس لئے اسلوبِ بیاں رکھتا ہوں
اپنے شعروں میں مطالب کا جہاں رکھتا ہوں
جھانک کر دل میں مرے دیکھ نہ پائے کوئی
کیسے بتلاؤں کہ غم اپنے کہاں رکھتا ہوں
فائدہ تجھ کو ہو نقصان نہ ہو جائے کہیں
میں کہاں تجھ سے الگ سود و زیاں رکھتا ہوں

0
6
ہوں غزل گو مگر اسلوب جدا رکھتا ہوں
میں سخن کے سبھی مطلوب جدا رکھتا ہوں
خط حفاظت سے مجھے رکھنے کی عادت تو نہیں
اس کے آ جائیں جو مکتوب جدا رکھتا ہوں
رند ہوں وہ جو پلائے تو پیا کرتا ہوں
اس کا پیمانۂ مشروب جدا رکھتا ہوں

0
8
وقتِ سحر جمال کی صورت نہ پوچھئے
شامِ فراقِ یار کی وحشت نہ پوچھئے
پھیلا ہے کائنات میں ہر سمت اس کا رنگ
نیرنگیٔ خیال کی حیرت نہ پوچھئے
سینے میں جل رہی ہے یہ جو آگ عشق کی
حسن و جمالِ یار کی حدّت نہ پوچھئے

0
8
زمین و آسماں، گردش میں تارے ہوں عدم سارے
شجر دریا سمندر سب ، ترے نقشِ قدم پیارے
دواتوں کے سمندر ہوں ، شجر اقلام ہوں سارے
تری تعریف لکھیں جب ،سبھی پڑ جائیں کم پیارے
گُل و خوشبو کی باتیں ہوں، غزل نغمے ہوں بلبل کے
سُنوں تو مُسکرا دوں، دور ہوں سب دل کے غم پیارے

0
7
آنکھوں میں اشک ، تیری جدائی نہ لا سکے
باتوں میں تیری جھوٹ ، صفائی نہ لا سکے
مدہوش ہو کے ہوش کی باتیں کرے کوئی
کر دے نشہ جو دور کھٹائی نہ لا سکے
کرتا ہے رہنمائی ملے روح کو جو نور
وحشت ہو آنکھ میں تو رسائی نہ لا سکے

0
8
بینا ہے کیا وہ آنکھ جو تجھ تک نہ جا سکے
جینا ہے کیا اگر کوئی تجھ کو نہ پا سکے
گرچہ ہوئی ہے عشق میں یہ آنکھ اشکبار
“ یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے”
انسان ہے بنا جو امانت کا ہے امیں
ارض و سما جبل کہاں یہ بوجھ اٹھا سکے

0
8
بینا ہے کیا نگاہ جو تجھ تک نہ جا سکے
جینا ہے کیا اگر یہاں تجھ کو نہ پا سکے
گرچہ ہوئی ہے عاشقی میں آنکھ اشکبار
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
انسان ہے بنا جو امانت کا ہے امیں
ارض و سما ، پہاڑ کہاں بوجھ اٹھا سکے

0
6
افکار سن کے تلخیٔ گفتار مر گئے
شیریں سخن تھے صاحبِ کردار مر گئے
اندر سے کھا رہے تھے انہیں کچھ گناہ بھی
توبہ کئے بغیر گنہ گار مر گئے
منہ دینے کا ہر ایک کو جو حوصلہ نہ تھا
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے

0
6
رکھتے تھے شوق کر کے جو دیدار مر گئے
جلوے سے ایک خود سرِ بازار مر گئے
ماحول اُس گلی کا نہ راس آ سکا انہیں
کوٹھی سے آئے کوٹھے پہ دو چار مر گئے
صد حیف کہہ نہ پائے تھے جو حالِ دل کبھی
کرنے سے پہلے پیار کا اظہار مر گئے

0
5
جب دیا دل اسے جاں دینے کو تیّار رہے
اِس کے بدلے میں صلے کے نہ طلب گار رہے
روشنی یوں تو بہت چاند نے پھیلائی تھی
تم ہی ظلمات کی دیوار کے اُس پار رہے
اُس کو کیا ذات قبیلے سے کہ زر کتنا ہے
وہ یہی پوچھے گا کس کس کے وہاں یار رہے

0
6
غزل
شعر کہتے ہیں بزمِ ادب کے لیے
ہر طرف تا جلیں چاہتوں کے دیے
سب کو اردو زباں ہے بہت محترم
اس میں آداب و تسلیم کے قافیے
کیسے دیکھیں گے چپ چاپ اس پر ستم

0
12
ہوئے ہیں جنگ کے ساماں کہاں پائے اماں کوئی
رکھے سنبھال کر کس کی حفاظت میں یہ جاں کوئی
نہ ملتا ہے نہ ملنے کا اشارہ کوئی دیتا ہے
دیا امّید کا روشن کرے دل میں کہاں کوئی
ہمیں معلوم ہے تیرے جہاں ہیں اور بھی لیکن
یقیں ہو کس بھروسے پر کہ ملتا ہے وہاں کوئی

0
8
حد ہوئی رحم کی برسات نئی کی جائے
پیش بندی ہوں نہ آفات نئی کی جائے
جھولیاں چھوٹی پڑیں دینے پہ آئے جب تُو
تیرے کرنے کی عطا بات نئی کی جائے
ہم نے دیکھا ہے دعاؤں میں اثر ہوتا ہے
پھر دعا بدلیں یہ حالات نئی کی جائے

0
8
خدا کو کھو دیا ہے اس کا عکس ڈھونڈتا ہے
بگولہ خاک کا کیا کر کے رقص ڈھونڈتا ہے
اگرچہ دیر ہوئی اس سے ملا قا ت ہوئے
اسی کے ہاتھ کا وہ اب بھی لَمْس ڈھونڈتا ہے
ملی ہے جس کو سخاوت کی خوبی ورثے میں
کسی غریب کو وہ کھا کے ترْس ڈھونڈتا ہے

0
6
رنگ بکھریں جو فلک پر وہ دھنک ہوتی ہے
ہُوک اُٹھتی ہے جو دل میں وہ کسک ہوتی ہے
وہ جو سونے نہیں دیتی شبِ تنہائی میں
اپنے پوشیدہ گناہوں کی کھٹک ہوتی ہے
شور ہوتا ہے مرے کانوں میں سنّاٹے سے
غور کرتا ہوں تو وہ دل کی دھڑک ہوتی ہے

0
9
دل میں حسرت ہے نہ کوئی آس ہے مل جائے وہ
پھر طلب ہے کیوں ابھی تک پیاس ہے مل جائے وہ
مانگتا ہوں کیوں دعا اس کے لئے میں اب تلک
دل کے جو نزدیک بندہ خاص ہے مل جائے وہ
یہ ضروری تو نہیں ریکھائیں مل جائیں سبھی
ہاں خصوصاً وہ مجھے جو راس ہے مل جائے وہ

0
11
اُس پہ ظاہر نہ ہوا دل کا ملال ، اچھا ہے
کہہ دیا اس سے بہر حال کہ ، حال اچھا ہے
آسماں تکتے ہوئے ایک زمانہ گزرا
ابر برسا ہے جو اس سال تو سال اچھا ہے
لوگ بڑھ چڑھ کے یہاں لاکھ خزانے لُوٹیں
ہم لُٹا دیتے ہیں اُس پر کہ جو مال اچھا ہے

0
11
یہ جو حرکت ہے یہ ، از روزِ ازل لکھی ہے
ہے وہ گردش کہ نہ ہو جس میں خلل لکھی ہے
دائرے سارے مقرّر ہیں جہاں چلنا ہے
اس کی تعمیل بِلا ردّ و بدل لکھی ہے
تا ابد کس کی رفاقت ہے رہی دنیا میں
سب کی تقدیر میں آخر کو اجل لکھی ہے

0
9
وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا
جیسے آتا ہے نیا سال مگر آئے گا
جانے والے میں بھلا شکوہ ترا کیسے کروں
خاک و خوں لاشے لئے تُو بھی تو گھر جائے گا
لے کے امّید کی لو آس کا شعلہ لے کر
آفتاب اور نئی ایک سَحَر لائے گا

0
8
تمام عمر نبھاتے قرار گزری ہے
اگرچہ سر پہ قیامت ہزار گزری ہے
نہ سرو قد ہے نہ گیسو دراز ہیں اس کے
بنا کے دل میں مگر رہ گزار گزری ہے
حسیں وہ صورتِ گلزار بھی نہیں لیکن
چمن میں عرصہ ہوا کب بہار گزری ہے

0
10
جو ظلم کرنے میں یوں کسی پر گیا وہ تُل ہے تو کچھ کروں میں
جو بالمقابل ہوا خدا کے گیا وہ رُل ہے تو کچھ کروں میں
اداس راتوں میں نیند آئے تو خواب اس کو خراب کر دیں
خموش لمحوں میں دل کی دھڑکن کا شور و غُل ہے تو کچھ کروں میں
خزاں کے بعد اب بہار آئے کِھلیں پھر اک بار گُل چمن میں
ہزاروں پھولوں کو میں نے اب تک جو کھو دیا ہے تو کچھ کروں میں

0
9
ہے ترا یہ فضل اے میرے خدا
نیند سے دیتا ہے تُو خود ہی اُٹھا
شکر تیرا مجھ سے کیونکر ہو ادا
ہاں دیا ہے عاجزی سے سر جھکا
تجھ سے ملتی ہے جو توفیقِ دعا
مانگتا ہوں ہر گھڑی تیری رضا

0
11
مسلمانوں کو کیا یہ ہو گیا ہے
ضمیر ان کا کہاں پر سو گیا ہے
نہیں کانوں پہ جوں تک رینگتی اب
مسلماں اپنی غیرت کھو گیا ہے
فلسطینی لہو اتنا ہے ارزاں
کسی کو کیا بہایا جو گیا ہے

0
15
دھڑکتا ہے اگر دل تو وہ پتھر ہو نہیں سکتا
غلط کہتے ہیں پیار اس میں اُجاگر ہو نہیں سکتا
اگر ماؤں سے بڑھ کر پیار کا دعوٰی کسی کو ہو
محبّت میں کوئی اس کے برابر ہو نہیں سکتا
جو صحبت میں رہے پھولوں کی خوشبو اس سے آتی ہے
گلوں سے دُور رہ کر تُو معطّر ہو نہیں سکتا

0
12
پہلو میں بیٹھنے دے ، مری احتیاج دیکھ
حائل نہ راستے میں ہو ظالم سماج دیکھ
قدرت کے کارخانے میں بکھرے حسین رنگ
رنگوں سے تُو دھنک میں بھرا امتزاج دیکھ
خوشیاں جو لے کے پھرتے ہیں چہرے پہ ہر گھڑی
ان کے دلوں کے غم کا بھی کوئی علاج دیکھ

0
18
سچ بولو تم کب بولو گے
چُپ کا روزہ کب کھولو گے
پہلے تولو پھر تم بولو
بول دیا تو کیا تولو گے
کیا کیا اور چھپا ہے دل میں
ساری باتیں کب کھولو گے

0
16
غزل
بے ہنر کو عقل دے کر با ہنر کس نے کیا
اک شجر کو پھول دے کر با ثمر کس نے کیا
اس جہاں سے ہم چلے جاتے اسے جانے بنا
بھیج کر اپنے پیمبر ، باخبر کس نے کیا
کس نے بھیجا دن کو سورج دی توانائی ، ضیا

0
10
کچھ اور گہرے دل پہ لگے وار ہو گئے
اب تو عزیز ہجر کے آزار ہو گئے
تھے انتظار میں کہ کوئی چارہ گر ملے
تیرے فراق میں کئی بیمار ہو گئے
گھائل ہوئے تو گِر گئے تیرے حضور میں
تیرِ نظر دلوں کے ہیں جو پار ہو گئے

0
8
دلِ کُشتہ ، کسی کو دے دیا ہے
تو کیا دھوکہ ، کسی کو دے دیا ہے
کہاں تک ہجر کا دُکھ ، دل میں رکھتے
یہ دُکھ اپنا ، کسی کو دے دیا ہے
کہاں سے لائیں اب جا کر دل اک اور
جو اپنا تھا کسی کو دے دیا ہے

0
13
خدا نے تجھ کو عطا کتنی نعمتیں کی ہیں
کہ اپنے بندے سے بے حد محبّتیں کی ہیں
میں سوچتا ہوں سبب اس کا ہو گا کچھ آخر
کہ اس نے مانگے بنا ہی تو رحمتیں کی ہیں
مری حقیر سی کوشش کو بھی نوازا ہے
معاف کر کے خطائیں عنایتیں کی ہیں

0
9
سوچ تو ہے باعثِ ناکامیٔ تدبیر کون
روٹھ جائے جب خدا بدلے تری تقدیر کون
قتل کر کے اس لئے آزاد ہم کو کر دیا
خوں لگے ہاتھوں سے اب پہنائے گا زنجیر کون
کچھ نہ کچھ کوتاہیاں سرزد ہوئی ہم سے بھی ہیں
اس قدر لکھتا ہے ورنہ خونچکاں تقدیر کون

0
8
حکمرانوں کے محل جو باعثِ عظمت بنے
بن کے کھنڈر اب وہی ہیں باعثِ عبرت بنے
جب یقیں ہے آخرت کی نعمتیں ہیں لا زوال
طمعِ دنیا کس لئے پھر باعثِ حسرت بنے
مال و دولت کی کبھی کثرت بھی ہو اک امتحاں
پُر تعیّش زندگی ہی ، باعثِ غربت بنے

0
12
تشنگی دل کی دور کی جائے
اس کی آنکھوں سے آج پی جائے
ایک مدّت ہوئی ملے اس کو
حاضری اس کے گھر پہ دی جائے
اس کے در سے نہ جائے خالی کوئی
کیوں نہ اس کی دعا ہی لی جائے

0
10
پادری ، ملّا ، سیاست کے مصاحب ٹھہرے
بے وجہ ظلم کا باعث ہیں مذاہب ٹھہرے
جب کبھی خوفِ خدا یاد دلایا میں نے
میرے اشعار کے ظالم ہیں مخاطب ٹھہرے
جب مقابل پہ ہوں فرعون زمانے کے کھڑے
بیٹھ کر گفت و شنید ان سے مناسب ٹھہرے

0
11
نہ علم کی نہ شرافت کی ہے ضیا بخشے
یہ مال و دولتِ دنیا کسی کو کیا بخشے
رہا ہے ظلم کا خاموش جو تماشائی
صدا اُٹھائے زمانہ خدا حیا بخشے
یہ تیرہ شب ہے طوالت میں بڑھتی جاتی ہے
عطا ہو روشنی دل کو خدا دیا بخشے

0
12
دوستی سے بڑھ کے سوچا ہی کوئی رشتہ نہ تھا
دوست یوں بن جائیں گے دشمن کبھی سوچا نہ تھا
فرق تھا اس سے عقیدے میں ہوا جس سے فراق
اس سے پہلے وہ خفا مجھ سے کبھی ہوتا نہ تھا
بارہا مجھ سے کہا اس نے کہ پہلے تو کبھی
اس قدر خوشبو سے دل کا یہ چمن مہکا نہ تھا

0
16
انجانا سا اک خوف اتر کیوں نہیں جاتا
جو دل میں ہے بیٹھا ہوا ڈر کیوں نہیں جاتا
فرصت ہو اگر تم کو تو اتنا کبھی سوچو
گھر اپنا ہو جس کا تو وہ گھر کیوں نہیں جاتا
کٹتا نہ سفر ہو تو یہ سوچے گا مسافر
منزل کا ہے رستہ تو اُدھر کیوں نہیں جاتا

0
11
کس قدر رشک ہے اس شخص پہ آیا صاحب
کون خُوش بخت تِری نظروں کو بھایا صاحب
کون دنیا میں رکھا کرتا ہے رشتوں کا لحاظ
کس کو پہچان ہے کون اپنا پرایا صاحب
عقل سے ہم کو گلہ ہے نہ خرَد سے شکوہ
تم نے اس حال میں دل اپنا چُرایا صاحب

0
11
ہمارے ہاتھ میں قسمت تھمی ہر گز نہیں آتی
کوئی دیکھا نہیں جس کو غمی ہر گز نہیں آتی
عطا کر دی ہے انساں کی محبّت جس کو مولٰی نے
یہ دولت جس قدر بانٹے کمی ہر گز نہیں آتی
لہو معصوم بچوں کا بھی بہتے دیکھ کر ظالم
تری آنکھوں میں کیا سچ مُچ نمی ہر گز نہیں آتی

0
13
جانیں جو اس کا حسن رہیں گے طواف میں
قرآں کو طاق پر نہ رکھیں بس غِلاف میں
ہر بات اس میں درج خدا کی کہی ہوئی
نازل ہوئی رسول یہ آیات صاف میں
انسان کے لئے یہ ضروری بہت تھا علم
بھیجا گیا اسی لئے دنیا کی ناف میں

0
9
بے کسی ہے ، بے بسی ہے ، بے یقینی تو نہیں
ظلم نے ایماں کی دولت مجھ سے چھینی تو نہیں
سوچ کا انداز ہونا مختلف ہی جُرم ہے
بن گئی ہجرت کا باعث ، بے زمینی تو نہیں
سچ کو سچ کہنے کا مجھ پر دھر دیا الزام ہے
سوچتا ہوں سوچ ہی اس کی کمینی تو نہیں

0
16
محبّت کا صلہ دینے میں کتنا وقت لگتا ہے
ذرا سا مسکرا دینے میں کتنا وقت لگتا ہے
فقیروں سے دعا لینا بھی مشکل تو نہیں ہوتا
خدا کو پر صدا دینے میں کتنا وقت لگتا ہے
گزر جاتی ہیں عمریں تب کہیں بنتا ہے گھر کوئی
کسی کا گھر جلا دینے میں کتنا وقت لگتا ہے

0
14
کہا تھا کس نے کہ خواب دیکھوں
کہ گھر میں اترے عذاب دیکھوں
میں ماؤں بہنوں کو بیٹیوں کو
سڑک پہ یوں بے نقاب دیکھوں
لہو میں لت پت ہزاروں لاشیں
نہیں ہے جن کا حساب دیکھوں

0
14
کب یہ بدلے گی شب سویروں میں
بیٹھے کب تک رہیں اندھیروں میں
شمع بیکار تو نہیں جلتی
سارے شامل ہوں اس کے پھیروں میں
بن کے پروانہ جاں لُٹائیں جب
ہوں گے شامل تبھی دلیروں میں

0
8
کُھلے اُس گھر کے رستے تو رہے ہیں
مصیبت میں بھی ہنستے تو رہے ہیں
بہاروں کا کریں ہم ذکر کیا کیا
خزاؤں میں پنپتے تو رہے ہیں
ستارہ آسماں پر کوئی ٹوٹا
یہاں بادل گرجتے تو رہے ہیں

0
11
کچھ نہ کچھ اپنا تعارف تو کرایا جائے
اگلی نسلوں سے تعلّق کو بڑھایا جائے
یوں نہ ہو آپ کا بھی مول لگا دے کوئی
خود کو ایسے تو نہ بازار میں لایا جائے
چاہئے پیار نصابوں میں بھی شامل کر لیں
یہ نصیبوں سے ملے درس پڑھایا جائے

0
10
جانتا ہوں میں مقدّر کا سکندر تو نہیں
میرے افکار ارسطو کے برابر تو نہیں
ہیں بہت موتی تہہِ آب صدف کے اندر
ہاں مری سوچ کی گہرائی سمندر تو نہیں
صاف دل رکھتا ہوں پاکیزہ تصوّر ہیں مرے
دل مرا گرچہ کوئی مسجد و مندر تو نہیں

0
12
مہنگی بات ہے سستے دام
خوشیوں کے تَو اَم آلام
دل سے نکلی آج دعا
رادھا کو مل جائے شام
لے کر پھرتے ہیں کتنے
چُھری بغل میں منہ میں رام

0
10
تم سے لگائی شرط جو ہاری نہیں کبھی
کہہ دو گے یاد آئی تمہاری نہیں کبھی
سچ سچ بتاؤ تم کہ ہوا ہے یہ حال کیوں
کاجل سے آنکھ بھی تو نکھاری نہیں کبھی
جینے لگے تھے ہم بھی مگر تم گئے تو پھر
ہم کو رہی یہ زندگی پیاری نہیں کبھی

0
15
شعر میں جب بھی خیالات نہ ڈھلنے پائیں
ہم تو رک جائیں وہیں ، آگے نہ چلنے پائیں
حرف ، قرطاس پہ تحریر کے محتاج نہیں
کھوئیں الفاظ بھی گر ، ہاتھ نہ ملنے پائیں
گر یہ عالم ہو تو مایوسی کی حد ہوتی ہے
جب دئے آس کے ، آنکھوں میں نہ جلنے پائیں

0
12
ہم مسافر آ گئے مستانہ تیرے شہر میں
لوگ سمجھے ہیں ہمیں بیگانہ تیرے شہر میں
آ گئے ہیں پی کے جائیں گے یہاں دو چار جام
دی خبر ساقی نے ہے مے خانہ تیرے شہر میں
اُن کی مت پوچھو ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں جاں
پیش کر دیتے ہیں جو نذرانہ تیرے شہر میں

0
15
رشتہ ہے خدا سے تو نظر کیوں نہیں آتا
قابُو میں یہ شیطاں کا شرر کیوں نہیں آتا
تقدیر میں لکھا ہی اگر ہو کے رہے گا
پھر صبر سے جینے کا ہنر کیوں نہیں آتا
معصوموں کا خوں روز بہاتے ہیں درندے
اب ختم یہ ہونے کو سفر کیوں نہیں آتا

0
15
چھینے جو گھر ترا کوئی گھٹ جائے گا نہ دل
اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جائے گا نہ دل
سُن کر کسی سے حال جو بھیگی ہے تیری آنکھ
سُن کر مری زبان سے پھٹ جائے گا نہ دل
تجھ کو کہاں ہے حوصلہ دیکھے یہ ظلم تُو
بچوں کی لاشیں دیکھ کے کٹ جائے گا نہ دل

0
10
دل میں اک درد کی لذّت کے سوا کچھ بھی نہیں
اور چہرے پہ بجھارت کے سوا کچھ بھی نہیں
سرِمقتل وہ جو خود چل کے گیا ہے لوگو
جُرم اس کا تو محبّت کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم عبث کہتے رہے تیرے لئے جیتے ہیں
زندگی تیری عنایت کے سوا کچھ بھی نہیں

0
15
کس کو ، طوفاں میں ، کہیں رستہ بتایا جائے
ناؤ منجدھار میں ہے اُس کو بچایا جائے
ہے تلاطم بھی اگر موجوں میں ڈرنا کیسا
دُور دریا نہیں اُس پار تو جایا جائے
تیرہ شب میں ہے اگر چاند کو بھجوایا گیا
کیا ضروری نہیں اُس نُور کو پایا جائے

0
10
بِن عمل ، جو پڑھائی کرتا ہے
کیا یونہی سر کھپائی کرتا ہے؟
وہ شہنشاہوں سے بھی ہے افضل
اس کی جو بھی گدائی کرتا ہے
چاندنی تو بلائیں لیتی ہے
چاند کب بیوفائی کرتا ہے

0
8
خدا کی قدرتوں کو ہر طرف عیاں دیکھو
ذرا سا جھانکو تو دل میں اسے نہاں دیکھو
نہ چین لینے دے تم کو تمہارے دل کی خلش
سکون ڈھونڈنے نکلو کہاں کہاں دیکھو
پڑا ہے واسطہ تم کو گلاب لوگوں سے
ہوا مہک سے معطّر ہے اک جہاں دیکھو

0
18
تو نے خود بھیجا جسے کیا اس کا دم بھرتا نہیں
ماننے والوں پہ بھی کیا رحم تُو کرتا نہیں ؟
تجھ پہ جب ایمان لایا ہے ، خدا اس کا ہے تُو
تو نے دیکھا بھی ہے کیا تیرے لئے مرتا نہیں
اس سے پہلے ذکر آیا تھا جو اک موعود کا
مان لینے سے اسے مومن کوئی ڈرتا نہیں

0
11
نہ جانے کب کہاں کس نے محبّت کر عطا ڈالی
قیامت خیز لیکن زندگی اُس نے بَنا ڈالی
کچھ اپنے پیار کا قصّہ سنایا دوستی میں جب
ہمیں تو داستاں اس نے رقابت کی بتا ڈالی
بدل ڈالا ہماری دوستی کو دشمنی میں ہے
ہمارے بیچ میں شیطان نے جب بھی اَنا ڈالی

0
13
کب تک اسیر ، گُل رہیں گے ، نوکِ خار کے
آئیں گے ، ہے یقین ہمیں ، دن بہار کے
ظالم کے ہاتھ وہ خدا پکڑے گا ایک دن
وعدے ہیں اس کے یاد ہمیں ، بار بار کے
آئے گا دفعتاً لئے لشکر وہ اپنے ساتھ
آخر کو ختم ہوں گے یہ دن انتظار کے

0
10
کہا کس نے کسی کے بن ہے میری زندگی مشکل
کہا کس نے گزرتی ہے مری شب جاگ کر اکثر
کہا کس نے اکیلے کاٹنے کو دوڑتا ہے گھر
کہا کس نے اداسی نے یہاں ڈیرے لگائے ہیں
کہا کس نے کہ تنہائی مرا دُکھ ہے کوئی بانٹے
کہا کس نے بچھڑنے کا تو غم دل چیر دیتا ہے

0
14
کچھ راہ و رسم تجھ سے ، مرے کام آئی تو
لے کر صبا پیام ، مرے نام آئی تو
کم ظرف تھے جو مانگنے کا حوصلہ نہ تھا
تیری نگاہِ مست ، لئے جام آئی تو
خوشبو ترے بدن کی تھی آنگن میں آگئی
یادیں تری سمیٹ کے پھر شام آئی تو

0
14
خوشبو کو فضاؤں میں بکھرنا ہی پڑے گا
نغمہ ہے تو پھر لَے کو نکھرنا ہی پڑے گا
آداب جو سیکھے ہیں سنبھل کر ہی کریں بات
کچھ حفظِ مراتب بھی تو کرنا ہی پڑے گا
بیٹھا ہے بھلا کون ہمیشہ سرِ مقتل
اک دن ہمیں ، مسند سے اترنا ہی پڑے گا

0
9
دعا جو صبح کو کی تھی وہ میرے کام آئی
وہ بن سنور کے سرِ عرش کر سلام آئی
نگاہِ لطف نے مہمیز دی ہے جذبوں کو
محبّتوں کو عطا کر کے جو دوام آئی
جُنوں نے حسرتوں کے داغ دل میں چھوڑے ہیں
کہ آرزو بھی خرد کے ہے زیرِ دام آئی

0
17
ہر سمت ہے سامان ہوا نوحہ گری کا
ماحول مگر کیوں ہے یہ آشفتہ سری کا
غفلت کے لحافوں میں پڑے سوئیں شب و روز
حق ان سے ادا کیسے ہو پھر ہم سفری کا
گر ہو گا حساب ان سے تو کس بات کا ہو گا
رکھتے ہیں بہانہ تو فقط بے خبری کا

0
15
ہم جہاں جاتے
غم وہاں جاتے
ڈھونڈنے کوئی
جانِ جاں جاتے
تشنہ تھے لب تو
کس کے ہاں جاتے

0
12
میں ہوں ، تم ہو
پھر کیوں گم ہو
سو جاؤں تو
کہتی قُم ہو
کر کے شکوہ
اب گُم سُم ہو

0
15
شعر ، اُس کو نہ پُر اثر کہنا
جو نہ سکھلائے شر کو شر کہنا
تم نے کیا کیا نقاب اوڑھے ہیں
سچ کو یوں جھوٹ ، سر بسر کہنا
پتھروں کے صنم بنا کر پھر
بت کدوں کو خدا کا گھر کہنا

0
13
سوار سب ہیں مسافر ، سبھی کو چلنا ہے
نہ جانے کون سی منزل پہ جا اترنا ہے
سمجھ میں آ گیا ، ہیں کس قماش کے کچھ لوگ
بھلا اسی میں ہے ، ان سے تو دور رہنا ہے
کہاں ہے وقت الجھتے رہیں یوں آپس میں
بس ان سے دوستی کا کیا حساب کرنا ہے

0
9
امن کی کوئی ابتدا کرتے
عمر گزری ہے انتہا کرتے
ہم سے کہتے ہیں تبصرہ کرتے
نوحہ یا مرثیہ کہا کرتے
تشنہ لب اس میں چپ رہے سارے
کیا سمندر سے وہ گلہ کرتے

0
15
سامنا کر رہا ہوں درپن کا
ساز سنتا ہوں کس کی جھانجن کا
یہ جو پردہ ہے تیرے آنگن کا
چاک ہے یہ کسی کے دامن کا
سانس کی ڈور سے جُڑا ہو جو
کیا بھروسہ ہے ایسے بندھن کا

0
22
چند گھڑیاں تھیں عیش و عشرت کی
لے گئیں چین جو ترے من کا
بھول بیٹھا تھا تُو جوانی میں
ہے بڑھاپا بھی حصّہ جیون کا

0
13
تھی جوانی بُھلا گئی مجھ کو
ہے بڑھاپا بھی حصّہ جیون کا
چند گھڑیاں ہیں عیش و عشرت کی
لے گئیں جو سکون ہی من کا

0
8
یہ رمزِ ہستی سمجھ میں نہ جب تلک آئے
ہو ظرف تنگ تو پیمانہ پھر چھلک آئے
ہوئی ہے خشک زمیں آفتاب جلتا ہے
ہے انتظار لئے ابر اب فلک آئے
یہ کر رہا ہے دلوں پر اثر سبب ہے کیا
ترے سخن میں ترے دل کی اک جھلک آئے

0
14
فلسطیں کی بستی پہ بمباریاں
انہیں چاہئیں جبکہ دلدار یاں
ہیں دنیا میں جو بھی تبہ کاریاں
یہ دجّال ہی کی ہیں عیّاریاں
حفاظت کریں اپنے گھر کی اگر
کہیں ان کو کرتے ہیں غدّاریاں

0
19
پڑی مٹی میں ہر شے خاک ہی ہوتی نظر آئی
مگر پھر چاک پر کوزہ گری ہوتی نظر آئی
گُل و بلبل وہیں موجود تھے لیکن اداسی تھی
چمن میں جانے کیوں افسردگی ہوتی نظر آئی
ہمیں اس حال میں رہنا وہاں منظور ہی کب تھا
ترے بن آنکھ میں جب تشنگی ہوتی نظر آئی

0
10
“لطیف لوگ لطافت کا لطف لیتے ہیں”
رہِ خدا میں ریاضت کا لطف لیتے ہیں
دکھائے حسن کا جلوہ وہ بام پر آکر
عجیب ہیں کہ قیامت کا لطف لیتے ہیں
اگرچہ زندگی سنجیدگی میں گزری ہے
کبھی تو ہم بھی شرارت کا لطف لیتے ہیں

0
15
لطیف لوگ لطافت کا لطف لیتے ہیں
رہِ خدا میں ریاضت کا لطف لیتے ہیں
دکھائے حسن کا جلوہ وہ بام پر آکر
عجیب ہیں کہ قیامت کا لطف لیتے ہیں
اگرچہ زندگی سنجیدگی میں گزری ہے
کبھی تو ہم بھی شرارت کا لطف لیتے ہیں

0
13
بدلے بدلے سے جو افکار نظر آتے ہیں
لوگ اکثر ہی سیہ کار نظر آتے ہیں
قحط لوگوں کا پڑا اتنا ہے چاروں جانب
چور ڈاکو بنے سر کار نظر آتے ہیں
وہ جو ہنس ہنس کے ملا کرتے ہیں وہ بھی تو ہمیں
کینہ پرور پسِ دیوار نظر آتے ہیں

0
22
مجھ کو اس دنیا میں کچھ اور ابھی رہنا ہے
کتنے باقی ہیں ابھی کام جنہیں کرنا ہے
میرے ماں باپ کا ہے قرض مری ہستی پر
ان کی ہو جائے گی بخشش مجھے وہ دینا ہے
اپنے ماں باپ کا میں پھر بھی رہوں گا مقروض
ان کے احسانوں کا بدلہ بھلا کیسے دوں گا

0
12
خیرہ آنکھوں کو کریں حسن وہ رخسار و دہن
ہوش سے کر دے جو بیگانہ تھی مہکارِ بدن
خود خدا نے وہ تراشا تھا صنم ایسا حسیں
میں چلا جاتا تھا کرتے ہوئے دیدار مگن
سبز کپڑوں میں وہ ملبوس تھی وادی مخمل
جن میں گاتے ہوئے چلتی ندی کہسار دمن

0
12
غم اور خوشی کا زندگی اک امتزاج ہے
شعلوں سے پُر حیات کا منبع سراج ہے
انصاف کا ہو خون تو جڑ ہے فساد کی
بد ظنّی کا مرض ہو تو وہ لا علاج ہے
ناراض ہو وہ خوش بھی ہو چھوٹی سی بات پر
ربّ کا بھی اپنے بندے سے ملتا مزاج ہے

0
17
سر پر مرے جو آج محبّت کا تاج ہے
کہتے ہیں یہ مرض تو مرا لا علاج ہے
ناراض ہو وہ خوش بھی ہو چھوٹی سی بات پر
کچھ مجھ سے ملتا جلتا خدا کا مزاج ہے
قائل ہیں لوگ چھوڑنے کے بد رسوم کو
کہتے ہیں خاندان میں رائج رواج ہے

0
19
مشکل میں چھوڑ دیں سبھی پکڑے نہ کوئی ہاتھ
لیکن بڑے یقین سے کہتا ہے رام ناتھ
ہر بات جانتا ہے وہ لمبے ہیں اس کے ہاتھ
کر لی ہے ہم نے دوستی اب اُس خدا کے ساتھ
جلوے نظر کو خیرہ کریں دیکھیں جس طرف
اُس گلبدن کے حسن کے مظہر ہیں پھول پات

0
11
تیرے احسان ہیں اتنے کہ نہ ہو ان کا شمار
حسن کی ایک جھلک دیکھوں تو آ جائے بہار
اے خدا مجھ کو تری ذات کی قُربت مل جائے
صاف ہو جائے اگر دل تو ہو چہرے پہ نکھار
بخش دے فضل سے اپنے تُو مرے سارے گنہ
راہِ تقوٰی پہ ہی چلتا رہوں میں لیل و نہار

0
44
ہمیں اس شہر میں رہنا نہیں ہے
ہمیں جذبات میں بہنا نہیں ہے
بجا ہے ناز اس کو حسن پر تو
مگر کیا اس نے بھی ، گہنا نہیں ہے
سجے گی مسکراہٹ خوب رُخ پر
اسے ، اس نے مگر پہنا نہیں ہے

0
13
جس طرح سے سرو قد شمشاد کا باقی رہا
اب بھی دیکھو احترام استاد کا باقی رہا
سیکھ کر اڑنا پرندے چھوڑ جائیں گھونسلے
سلسلہ استاد کی پر داد کا باقی رہا
منصفوں کو سوچنا ہے کل وہ کیا دیں گے جواب
مدرسے میں گر اثر جلّاد کا باقی رہا

0
16
ہے کون علم سیکھ کے بر باد ہو گیا
ہاں جا کے مدرسے میں جو آباد ہو گیا
کرتا ہوں احترام رکھوں پاس ہر گھڑی
جب سے کہ فون ہے مرا استاد ہو گیا

0
16
یوں جو پل پل بدل رہا ہوں میں
تیری جانب ہی چل رہا ہوں میں
مجھ کو پھینکا ہے گھر سے باہر کیوں
گر مصیبت کا حل رہا ہوں میں
تلخ میری زبان ، ہے سچی
گولی کڑوی ، نگل رہا ہوں میں

0
9
دیدار اُس کا وجہِ شناسائی ہو گیا
دیکھا اسے تو ہر کوئی شیدائی ہو گیا
دے دی خِرَد کو میرے جنوں نے شکست یوں
حسنِ ازل کو دیکھ کے سودائی ہو گیا
اس کے وجود کا ہوا اظہار اس طرح
دل سجدہ گاہِ شانِ کب ریائی ہو گیا

0
12
دیکھا اسے تو ہر کوئی شیدائی ہو گیا
حسنِ ازل کو دیکھ کے سودائی ہو گیا
میں خود بھی اپنے آپ کو پایا نہیں سنبھال
ہر راہگیر میرا تماشائی ہو گیا
مانا کہ اس کے وصل کی منزل بہت تھی دُور
اک رابطہ ہی باعثِ رُسوائی ہو گیا

0
16
لوگ کہتے ہیں مجھے عشق ہوا ہے اس سے
میں سمجھتا ہوں عطا کردی مجھے اس نے حیات
اس کی تخلیق ہوں میں ، مجھ کو سمجھتا ہے وہ
کوئی اس جیسا نہیں سب سے حسیں ، اس کی ذات

0
20
محبّت کی جو عادت ہو ، اسے ملنے چلے جانا
اگر اس سے ارادت ہو ، اسے ملنے چلے جانا
خدا کا نیک بندہ کوئی مل جائے غنیمت ہے
اسے ملنا عبادت ہو ، اسے ملنے چلے جانا
سفر ہوتا نظر آئے کٹھن تو مشورہ کر نے
اگرچہ یہ ریاضت ہو ، اسے ملنے چلے جانا

0
47
سامنے بندۂ رحمان کے آئے شیطاں
اس سے ڈرتا نہیں انسان جو اہلِ سلطاں
دینِ ملاّ سے تو پرہیز اُسے واجب ہے
چاہتا ہے جو ہمیشہ رہے اہلِ ایماں

0
12
کس نے یہ کہا راہ کو دشوار نہیں ہے
اس کو بھی محبّت سے تو انکار نہیں ہے
ملّاح کے ہاتھوں میں جو پتوار نہیں ہے
طوفان میں ناؤ بھی ہوئی پار نہیں ہے
اس عشق پہ کم ظرف بھروسہ نہیں کرتے
اس آگ میں کودا کوئی پِندار نہیں ہے

0
16
خود کو اچھی نظر سے دیکھیں گے
عرّتِ نفس ہم بھی سیکھیں گے
اپنا ہے احترام مدِّ نظر
آج سے خود کو ہم سنبھالیں گے
لوگ کیسے کریں گے عزّت جب
ہم ہی خود کو اگر نہ چاہیں گے

0
14
ذکر ہو اِس ماہ میں ماہِ عرب کا بار بار
سب سے بڑھ کر نعمتوں میں اُس کا ہوتا ہے شمار
قوّتِ قدسی ہے اس کی جس سے سارے پھل لگے
اس کے دم سے ہر طرف پھیلے ہیں اب باغ و بہار
حسن اور اخلاق کا کامل نمونہ اس کی ذات
وہ خدا کی قدرتوں کا دیکھ لو ہے شاہکار

0
10
آپ اپنی بے گناہی کی نہ قسمیں کھائیے
ہاں مگر سچ بات کہنے سے نہ یوں شرمائیے
اب تو ظاہر ہو گیا ہے کتنے پانی میں ہیں آپ
آپ جو چاہیں کہیں ہم سے نہ منہ کھل وائیے
اب تو ہم مرضی سے اپنی جائیں گے جب دل کرے
آپ سے کس نے کہا تھا ہم کو گھر بل وائیے

0
11
مرے مرشد نے مجھ سے یہ کہا تھا تم
حفاظت کے لئے اپنی
سمجھ کر ، پڑھ کے چاروں قل
انہیں سینے پہ اپنے پھونک دینا جب
نظر آئے دُھواں کوئی
کہیں جلنے کی بُو آئے

0
15
یوں شوق سے تو کوئی مقیّد نہیں ہوتا
کرسی پہ مگر صاحبِ مسند نہیں ہوتا
رنگینیٔ گلشن کا بھی ساماں ہے ضروری
خوشبو ہی فقط پھول کا مقصد نہیں ہوتا
سستانے کو دے دے جو کڑی دھوپ میں سایہ
گاؤں کی طرح شہر میں برگد نہیں ہوتا

0
12
کیونکر ہو شکر ، مجھ کو جو نعمت خدا نے دی
سجدے کی ، اپنے گھر میں، اجازت خدا نے دی
بچپن میں میرا ہاتھ پکڑ کر چلا دیا
اور ہر قدم پہ غیب سے نصرت خدا نے دی
نشتر نے میرا ساتھ دیا ایک عمر تک
پکڑا قلم تو پھر مجھے عزّت خدا نے دی

0
13
لوگ کم کم ہیں محبّت کو بڑھانے والے
جا بجا آئیں نظر ، آگ لگانے والے
قہقہے ہم جو سنا کرتے تھے ان گلیوں میں
اب نہیں باقی وہ دن ہنسنے ہنسانے والے
میکدہ جن سے رہا کرتا تھا آباد کبھی
لد گئے ، اب وہ کہاں پینے پلانے والے

0
9
کم ہوئے لوگ محبّت کو بڑھانے والے
جس طرف دیکھو نظر آئیں ستانے والے
دیکھنے آتے ہیں جلنے کا تماشہ پہلے
وہ جو ہوتے ہیں کہیں آگ لگانے والے
پھونک کر اپنے قدم رکھنا ہے یہ راہِ حیات
سب چلے جاتے ہیں اس پر جو ہیں آنے والے

0
10
کم بچے لوگ محبّت کو بڑھانے والے
جس طرف دیکھو نظر آئیں ستانے والے
دیکھنے آئیں جو جلنے کا تماشہ پہلے
لوگ ہوتے ہیں وہی آگ لگانے والے

0
16
ریگزاروں میں یوں سفر کر کے
تھک گیا خون اب جگر کر کے
اب تو پھولوں کی سیج لے آؤ
رات رُخصت ہوئی سحر کر کے

0
17
ہر ایک بات پہ تعریف کی جو خُو کرتے
نہ بات بات پہ کچھ لوگ ہاؤ ہُو کرتے
ہمارا ظرف کشادہ نہ دیکھ پاتے گر
ہمارے سامنے ساقی نہ پھر سبُو کرتے
نہیں ہے بزم میں جب اذن لب کشائی کا
سلے ہیں لب تو بھلا کیسے گفتگو کرتے

0
19
جھوٹے اور مکّار سے لوگ
ہیں کتنے خوں خوار سے لوگ
کام فقط دشنام دہی
یوں تو ہیں بے کار سے لوگ
اوپر کچھ اور اندر کچھ
کتنے ہیں فنکار سے لوگ

0
37
ہجر کا موسم کبھی اتنا تو یخ بستہ نہ تھا
ہم پہنچ جاتے مگر کوئی بچا رستہ نہ تھا
وہ خزاں موسم میں آیا تھا چمن کی سیر کو
ہاتھ خالی تھے کوئی ان میں تو گل دستہ نہ تھا
اس نے فرمائش پہ میری بھی سنایا کچھ کلام
مجھ پہ کیا ہوتا اثر جب شعر برجستہ نہ تھا

0
14
کچھ کہہ رہے ہیں تجھ سے یہ مینار اے خدا
غیرت کا تیری کچھ تو ہو اظہار اے خدا
تیرا ہی نام لے کے ترے گھر کو توڑ دیں
تیرے نبی کے پیار کی تعلیم چھوڑ دیں
اپنی جہالتوں کا تو یہ بھانڈا پھوڑ دیں
تعلیم تیری جیسے یہ چاہیں مروڑ دیں

0
13
سب کو کب ہانکا جاتا ہے صاحب ایک ہی سانٹے سے
تبدیلی ہوتی ہے ان میں ڈھونڈیں لوگ جو چھانٹے سے
کچھ اصلاح کی نیّت سے کہہ دو تو غصّہ کر جائیں
سنتے کب ہیں پیار سے وہ ناراض ہوں پر وہ ڈانٹے سے
ان کو بولو کر کے عمل تعلیم پہ خود بھی دکھلائیں
دوجا گال کریں نا آگے ڈر گئے ایک پہ چانٹے سے

0
15
تم کہتے ہو ڈر لگتا ہے رستے کے سناّٹے سے
نفرت کی فصلیں بوئی ہیں ، ڈر لگتا ہے کاٹے سے
لیکن ایک سفر پر ہم دم ، سب کو اک دن چلنا ہے
گر میزان میں پورے ہوں تو بچ جائیں گے گھاٹے سے

0
9
شمع یہ کہہ کے بجھا دیتے ہیں دیوانے بھی
یہ اگر جلتی ہے جل جاتے ہیں پروانے بھی
حسنِ سیرت سے نہیں اب ہے غرض صورت سے
وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں پیمانے بھی
ہم نے دیکھے ہیں بہت مسجدیں مندر ویراں
کیا کبھی خالی نظر آتے ہیں مے خانے بھی

0
13
اب نہیں انتظار ، کیا دیکھوں
جب گیا میرا یار کیا دیکھوں
کوئی بھاتا نہیں نظر میں اب
میں ترا پیار ویار کیا دیکھوں
اس کو دیکھا تھا ایک بار فقط
تجھ کو اب بار بار کیا دیکھوں

0
11
تیرِ نظر چلا تھا جو ہر دل پہ چل گیا
میں لڑکھڑا گیا تھا مگر پھر سنبھل گیا
یہ حادثہ بھی زندگی میں بارہا ہوا
میں سامنے ہوا تو وہ رستہ بدل گیا
یوں تو سنبھال کر رکھے میں نے سبھی قدم
وہ سامنے ہوا مرا پاؤں پھسل گیا

0
18
جان و مال اس کو ہمیں فکر تھی کیا دیتے ہوئے
ہاتھ میں ہاتھ جو تھا قولِ وفا دیتے ہوئے
برگ کتنے ہی مراحل سے گزر کر آخر
مر کے ہوتے ہیں امر رنگِ حنا دیتے ہوئے
وقت پر وہ بھی پہنچ جایا کرے پاس ترے
دیر ہو جائے نہ گر تجھ کو صدا دیتے ہوئے

0
11
محبّت سب سے ہو نفرت کسی سے بھی نہ ہو مولا
کدورت بغض کی حالت کسی سے بھی نہ ہو مولا
حقیقت میں ہمیں ہو پیار مخلوقِ خدا سے یوں
کوئی ظالم ہو تو نسبت کسی سے بھی نہ ہو مولا
اگر دعوٰی محبّت کا ہمیں غیروں سے ایسا ہے
تو آپس میں کبھی نفرت کسی سے بھی نہ ہو مولا

0
16
آئے تھے آپ خود یہاں یا کہ تھا لطف خواب کا
بھینی سی تھی مہک وہی رنگ وہی گلاب کا
ہم سے ملائکہ کہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں
لے چلیں گے بہشت میں چھوڑا حساب آپ کا
ہم سے حسابِ دوستاں ہو گا تو کیا بتائیں گے
کھولیں گے کیا لکھا ہوا اور کسی کے باب کا

0
11
اے مرے پیارے مرے محسن خدا
تُو نے ہیں پیدا کئے ارض و سما
چاند اور سورج تری تخلیق ہیں
زندگی ممکن نہیں ان کے سوا
اور ستاروں سے سجایا آسماں
راہ بتلائیں یہ سب نجم الہدیٰ

0
13
گھر بُلا کر کبھی اس نے مجھے پرکھا بھی نہیں
میں نے اس رستے پہ جانا ابھی سیکھا بھی نہیں
گھر کے سب کھڑکیاں دروازے کُھلے رکھے ہیں
منتظر ہوں کسی دیوار پہ لکھا بھی نہیں
مہرباں ہو گی کبھی تو مری قسمت مجھ پر
مجھ کو امید ہے گو ہاتھ میں ریکھا بھی نہیں

0
21
گھر کے سب کھڑکیاں دروازے کُھلے رکھے ہیں
منتظر ہو کسی دیوار پہ لکھا بھی نہیں
منتظر رہتا ہے دل میں ہی تمہارے جو وجود
تُم نے اس ذات کو در کھول کے دیکھا بھی نہیں

0
24
بات کرتے ہیں صلح مندی کی
ہم نے کب کوئی شر پسندی کی
ہم تو پہلے ہی تھے خلاف اِس کے
آپ نے خود ہی فرقہ بندی کی
آخرش کیوں نہیں چلی جاتی
دل سے بیماری خود پسندی کی

0
13
دل خطر ناک کر لیا تم نے
عشق بے باک کر لیا تم نے
تھا جو تیرِ نظر نشانے پر
مانا یہ تاک کر لیا تم نے
کیسے ہوگا تمہارا دامن تر
عشق میں چاک کر لیا تم نے

0
29
اور پوچھو گے امتحان میں کیا
زندگی دی ہے مجھ کو دان میں کیا
گفتگو کی ہے مجھ سے تھوڑی دیر
کچھ کمی آ گئی ہے شان میں کیا
ہوں خوشی میں شریک بانٹ لیں غم
اور ہوتا ہے خاندان میں کیا

0
16
ابھی تلک ہے رہا کچھ نہ کچھ اثر باقی
نہ میکدہ نہ رہی مے ہے بُوند بھر باقی
یقیں ہے کل یہاں انسان گھر بنائے گا
نقوشِ پا ابھی اس کے ہیں چاند پر باقی
لکھی ہے خط میں اسے دل پہ جو بھی گزری وہ سب
سلام لکھنا اسے رہ گیا مگر باقی

0
10
یوں لگ رہا ہے کہ ہے کچھ نہ کچھ اثر باقی
نہ میکدہ رہا ، مے ہے نہ بُوند بھر باقی
یقیں ہے کل یہاں انسان گھر بنائے گا
نقوشِ پا ابھی اس کے ہیں چاند پر باقی
لکھی ہے خط میں اسے دل پہ جو بھی گزری ہے سب
سلام لکھنا اسے رہ گیا مگر باقی

0
16
یوں لگ رہا ہے کہ ہے کچھ نہ کچھ اثر باقی
نہ میکدہ رہا مے ہے نہ بُوند بھر باقی
یقیں ہے کل یہاں انسان گھر بنائے گا
نقوشِ پا ابھی اس کے ہیں چاند پر باقی
لکھی ہے خط میں اسے دل پہ جو بھی گزری ہے سب
سلام لکھنا اسے رہ گیا مگر باقی

0
15
جس سے دروازہ کھلا ہے معرفت کے نور کا
پُر سکوں دنیا ، قیامِ امن کے منشور کا
وہ کلامِ لم یزل اترا حرا میں اس طرح
اک ستوں آیا نظر تھا آسماں تک نُور کا
ہاتھ میں ساقی نے لا کر دو دئے شربت لذیذ
زنجبیلی پائے گا ، جس نے پیا کافور کا

0
30
وہ میری جان تھا وہ مری آرزو بھی تھا
جب بھی ملا ہوں میں اسے تو باوضو بھی تھا
پندارِ عشق نے مجھے روکا نہیں کبھی
وہ میرا مان تھا وہ مری آبرو بھی تھا
لگتی تھی زندگی مجھے اس کے بنا تہی
میں اس کی زندگی میں ذرا فالتو بھی تھا

0
9