فکرِ فردا کے تانے بانے ہیں
یا ہوئے لوگ اب سیانے ہیں
ہو پرانی کتاب کیا جس میں
نئے افکار کے خزانے ہیں
مان لیں تو عمل نہیں ہو گا
جاں چھڑانے کے یہ بہانے ہیں
سارے کردار جن کے زندہ ہوں
وہ حقیقت ہے یا فسانے ہیں
جس طرح سے بھی ہو ارادہ ہے
دوست روٹھے ہوئے منانے ہیں
کون اترا ہے پھر مقابل پر
جس نے بازو یہ آزمانے ہیں
دل بدلنا کہاں پہ ہے آساں
معجزے اُس نے ہی دِکھانے ہیں
دل کو کامل یقین ہے جس پر
اُس نے وعدے سبھی نبھانے ہیں
اس کے ہاتھوں میں آ گئے طارق
کھوٹے سکّے اُسے چلانے ہیں

0
7