خدا کی جستجو میں جل گیا جو وہ گلاب ہے |
نفی میں ہی ثبوت ہے، عدم میں ہی جواب ہے |
کسی کے عشق نے خُمار بن پئے عطا کیا |
میں کیا کہوں، کہ معرفت ، لطیف سی شراب ہے |
حقیقتوں سے واسطہ پڑا ہے اس جہان میں |
نہ دل میں حسرتیں کوئی ، نہ آنکھ ہی میں خواب ہے |
جو میں تھا، وہ تو مٹ گیا، ہے ذات اُس کی لم یزِل |
فنا کی راہ پر ملا، بقا کا اِک نصاب ہے |
نظر تلاشتی ہے تجھ کو ہر گلی کے موڑ پر |
خِرَد نے کب سے کر دیا جو ترکِ احتساب ہے |
سکھائے عقل خامشی ، ہے اضطرار میں سکوں |
یہ بے زبانئ جنوں ، یہی مرا خطاب ہے |
حضورِ حق میں جو گیا، وہی تو سرخرو ہوا |
لہو سے دھل گیا وجود، جس کی آب و تاب ہے |
جو زُہد میں صفا نہیں ، حیات کی جِلا نہیں |
کہ سچ کا رنگِ صوفیؔا، فقط دلوں کا آب ہے |
نہ ظرف میں، نہ حرف میں، دلوں میں عکس ہے ترا |
اسی کے انعکاس سے چمکتا ماہتاب ہے |
فراق کی ہے داستاں طویل ، مختصر سنو |
وصالِ یار ہو نہ جس میں ، کیسا وہ شباب ہے |
ندامتیں ہیں اس قدر ، کہاں پہ بھول ہو گئی |
لکھا ہوا کتاب میں عجیب سا حساب ہے |
کتابِ زندگی لکھی گئی ہماری خون سے |
تو سُرخیوں میں سج گیا ہر ایک اُس کا باب ہے |
ہے طارقؔ اس کی گفتگو سنی تو یہ گماں ہوا |
سمجھ رہے ہو روبرو ہوا وہ بے نقاب ہے |
معلومات