دل کی وادی میں اتر کر نُور نے یہ کہہ دیا
عشق آخر کھولتا ہے تیرگی کی ہر گرہ
جب تجلّی نے پکارا دل نے راہِ شوق لی
روح اتری زندگی نے سانس سینے میں بھرا
چشمِ باطن جب کھُلی اسرار خود ظاہر ہوئے
ہر جھلک میں لطفِ یکتا ہر نظر جلوہ نما
راستہ جب مُڑ کے دیکھا میں نہ تھا رستہ نہ تھا
صرف اک سانسِ حقیقت اک وہی مشہود تھا
ریت ریتا لمسِ جاناں کی خبر پا نا تو ہے
فیض آیا دل پہ یوں آہستہ سے جیسے صبا
ذکر کے موتی کھنکتے ہیں سکوتِ دل کے بیچ
چاندنی میں مست ہو کر جھومتی ہے جب ہوا
وصل کی صبحِ درخشاں نے کہا اسرار سے
جس میں طارق گم ہوا اُس شام تھا وہ گھر بنا

0