جس طرف دیکھو ترا حسن ہے مستور ہوا
دیکھ کر دل یہ محبّت میں تری چُور ہوا
دُکھ ہوئے دور نہ شکوہ نہ رہا غم باقی
تیرا جلوہ ہوا جس دل پہ نہ رنجُور ہوا
زیست کے دشت میں الہام کے پانی کی شراب
جس نے پی لی تری الفت میں وہ مخمور ہوا
یہ ضروری تو نہیں دل بھی ہو ٹکڑے ٹکڑے
تو اتر آئے جہاں موسٰی کا وہ طُور ہوا
تُو مرے سامنے آیا تو نگاہیں نہ اُٹھیں
آنکھ بھر کر تجھے دیکھوں یہ نہ مقدور ہوا
ایک گمنام کسی بستی میں عاشق تیرا
ایک عالم میں وہی نام ہے مشہور ہُوا
جو نہ مانے تو قضا کرتی ہے بے بس اُس کو
آگے تقدیر کے جھکنے پہ وہ مجبور ہوا
عشق توہین کے الزام میں سُولی پہ چڑھے
کب سے دنیا کا ہے طارق یہی دستُور ہوا

0