آدم اگر آدم ہی سے بیزار ہوا ہے
ناراضیٔ خالق ہی کا اظہار ہوا ہے
پہنچی ہے یہ دنیا جو تباہی کے کنارے
شاید کسی مظلوم کا آزار ہوا ہے
سیلاب بلا وجہ تو آیا نہیں کرتے
لگتا ہے کسی نوح کا انکار ہوا ہے
انسان عقیدے کا بنا کب سے مکلّف
کیوں اپنی منانے پہ ہی اصرار ہوا ہے
مامور حفاظت پہ ہوئے چور لٹیرے
منصف بھی وہی صاحبِ دستار ہوا ہے
نکلے ہیں جو زنداں سے کہیں درد کے قصّے
بتلائیں کہ کیا کیا پسِ دیوار ہوا ہے
ہجرت پہ ہیں مجبور ہوئے اپنے وطن سے
واں دیں پہ عمل کرنا بھی دشوار ہوا ہے
طارق ہے جو خاموش دعاؤں پہ بھروسہ
انکار سدا باعثِ انذار ہوا ہے
ڈاکٹر طارق انور باجوہ لندن

0
7