لہو سے ہو گئے رنگیں چمن کے گل ، تو لہرائے |
زمیں روئی، فلک لرزا، مگر ظالم نہ باز آئے |
لہو میں ڈوب کر آئی صدا ، اللہُ اکبر کی |
کہ ہر قطرے کی خواہش ہے زمیں پر دیں کو پھیلائے |
تمہیں ہر آہ کھینچے گی برُو ئے داوَرِ محشر |
ہماری مسکراہٹ پر کہاں قدغن لگا پائے |
چراغِ زندگی تم نے بجھانے کی تو ٹھانی ہے |
لکھے گا خون تاریخوں میں ، سوچا بھی ! ہے کیا رائے |
یقیں کی روشنی معصوم چہروں پر نظر آئی |
دلوں کو مضطرب کرنے وساوس تو بہت آئے |
یہ خاموشی نہیں، ہونٹوں پہ شعلے بولتے ہیں اب |
تمہاری بے حسی پر آسماں پتھر نہ برسائے |
لرز اٹھتی ہیں بنیادیں ، کسی بھی تختِ باطل کی |
خدا کا غیظ جب بھڑکے ، غضب کی آگ دہکائے |
رگوں میں ہے ہماری حق کی خاطر جان دے دینا |
نہیں معلوم اُس کو گر ، عدو کو کوئی سمجھائے |
مہکتے ہیں زمین و آسماں خوشبوئے ایماں سے |
یہاں پر جان دینے سے ، نہ طارقؔ ، کوئی گھبرائے |
معلومات