اے خدا کے فیض اور عرفان کے چشمے رواں
تشنہ لب دوڑے چلے آتے ہیں تجھ تک کارواں
رحمتِ حق کا ہوا مکّہ میں جو جلوہ عیاں
نور سے اس کے ہوئے معمور سب کون و مکاں
طور پر موسی نے دیکھا روشنی کا اک نشاں
اور مدینہ میں محمد کو ملا دیدارِ جاں
ذکرِ احمد سے ہوئے روشن سبھی ہیں بحر و برّ
مصطفیٰ کو رب نے بخشی عزتِ ہر دو جہاں
ان پہ جبریلِ امیں لاتے رہے رب کا پیام
رفتہ رفتہ یوں ہوا نازل کلامِ جاوداں
ارض و افلاک و زمانہ ہر طرف ان کا جمال
خود خدا نے نام ان کا کر دیا سب پر عیاں
چشمِ عالم ہو گئی روشن انہی کے فیض سے
ان کے علم و معرفت سے ہو گیا اجلا جہاں
ان کے اسمِ پاک کی برکت سے ملتی ہے شفا
ان کے دم سے دور ہو جائیں مرض دل کے نہاں
ہم کریں ایسے عمل پائیں شفاعت یا نبی
روزِ محشر ہم پہ بھی لطف و کرم کا ہو سماں

0
1