دل کو دیکھا تو نظر آئی حقیقت اپنی |
پھر یہ ہمّت نہ ہوئی کر دوں شکایت اپنی |
بے خودی میں ہی ملا رازِ دروں خانۂ دل |
میں نے جب چھوڑ دی ، دنیا سے محبت اپنی |
جو بھی آیا، وہ گیا ذات کی دہلیز سے پار |
ہم نے دیکھی ہے فقط اس میں ہی صورت اپنی |
ذکر، خاموشی، نظر، اشک، ہوا، رنگ، صدا |
ہو گئی یوں ہی ادا کچھ تو عبادت اپنی |
کچھ نہ مانگا، نہ کیا ترکِ طلب کا چرچا |
یوں ہوئی گویا ، انا کی تھی جو عادت اپنی |
سرد مہری کے ہوں جذبات ، ہے کیسے ممکن |
اس کی قربت میں تو ، باقی ہے حرارت اپنی |
بند آنکھوں سے نظر آتے وہ جلوے کیسے |
پائی جب تک نہ بصارت نے بصیرت اپنی |
تیرگی بانٹتی رہتی ہے خرد کی آواز |
دل کو چمکائے جنوں خیز حکایت اپنی |
یاد وہ آئی تو ہر شے میں نظر آیا ہے وہ |
کھو گئی ذات میں اس در کی زیارت اپنی |
اب نہ طارقؔ ، کوئی خواہش، نہ تمنّا، نہ انا |
کر چکا ہوں میں مکمل جو وصیّت اپنی |
معلومات