غزل
جو رہِ وفا میں ہے جاں گئی، تمہیں کیا خبر ، وہ کہاں گئی
جو لہو بہا تو اٹھی دعا، وہ عدو کا کر کے زیاں گئی
وہ جو خونِ دل سے لکھی گئی، وہی ایک عرضِ نہاں گئی
کبھی خاک پر جو رقم ہوئی، وہی لوحِ دل کی زباں گئی
ترے آستاں پہ جھکی جبیں، ترے خواب دیکھ کے سب حسیں
یہیں اہلِ دل کی قضا ہوئی، یہیں زندگی بھی جواں گئی
وہ جلی تو مثلِ چراغ تھی ، ترا آندھیوں میں سراغ تھی
وہی اک شعاعِ یقیں بنی، وہی روشنی مری جاں گئی
جو خموشیاں تھیں لبوں پہ ، نعرۂ حق کی ساری صدائیں تھیں
وہی بے بسی تری ، عرش تک ، جو بنی ہے ، آہ و فغاں گئی
ترا نام لے کے جو رو پڑے، تو کہاں کی ہے یہ بہادری
جو رہا غرورِ وفا ترا ، نہ رہی طلب، نہ اماں گئی
نہیں لب کھُلے ، نہ گلہ ہوا ، رہے دل پہ جو بھی ستم روا
یہ شعور تھا کہ جنون تھا ، نہیں یاد دل میں نہاں ، گئی
نہ سُنی کسی نے وہ غور سے ، وہ جو عشق نے کہیں دی نوا
وہی اک صدا تھی نوید کی، جو ہوا میں بن کے اذاں گئی
دلِ خستہ جب بھی تڑپ اٹھا، وہی آرزو کی فغاں سنی
نہ ملا سکوں، نہ قرار ہی ، وہ سکوت کی جو زباں گئی
وہ جو کرب تھا مری ذات کا ، وہ تری عطا کا نشان تھا
وہ جو آنکھ بھر کے بہا دیا، تو مری خوشی بھی رواں گئی
تھا اسے یقیں تُو کریم ہے ِ، تری ذات ، ذاتِ رحیم ہے
نہ دوا رہی ، نہ دعا ہی کی ، جو بچی وہ حسرتِ جاں گئی

0
6