یوں بے وجہ ہی طیش سے بل کھائیے نہ آپ
محفل سے روٹھ کر یوں چلے جائیے نہ آپ
کب تک رکھیں گے دل میں پرانی وہ رنجشیں
ماضی کے قصّے دل سے بھلا پائیے نہ آپ
دل میں ہمارے آپ کی عزّت ہے کچھ جناب
ناراض ہو کے قدْر گن٘وا جائیے نہ آپ
ایسا نہ ہو کہ خواہشیں بن جائیں حسرتیں
کچھ دل کا حال ہم سے بھی فرمائیے نہ آپ
آئے ہیں اتنی دور سے کچھ دیر تو رُکیں
کب ہم نے یہ کہا یہاں سے جایئے نہ آپ
ہم کو تو اس ہوا نے ہراساں نہیں کیا
اتنا بھی خوف شہر میں اب کھائیے نہ آپ
سن لیں ہماری بات تو کچھ فائدہ بھی ہو
اپنی ہی بات کہتے چلے جائیے نہ آپ
طارق غرور سے بھلا کس کا بھلا ہوا
پھر عاجزی سے بات کو منائیے نہ آپ

0
9