اشک آنکھوں کو جو بھگو دے گا
شعر لفظوں سے وہ پرو دے گا
دعوئ عشق تو سبھی کو ہے
دودھ کی نہر کون کھودے گا
بات فرہاد سے بھی کر دیکھو
مسکرا دے گا یا وہ رو دے گا
فائدہ گفتگو کا ہو گا کیا
وہ جو دیتا ہے زخم ، سو دے گا
کھیتیاں دو نہ اس کے ہاتھوں میں
وہ جو نفرت کے بیج بو دے گا
دوست کچھ بھی نہ دے سکے پھر بھی
دو تسلّی کے بول تو دے گا
چلنا ، ہشیار ہو کے شیطاں سے
دھوکہ حرص و ہوس کا وہ دے گا
کیا ہے صیّاد اس قدر سادہ ؟
ہاتھ آیا شکار کھو دے گا
مانگو اس سے کہ اس کا وعدہ ہے
جو بھی تم اس سے مانگ لو دے گا
وہ جو غفّار ہے کریم بھی ہے
وہ تو سارے گناہ دھو دے گا
طارقؔ اس کی رضا سے ہے مطلب
ہم کو منظور ہے وہ جو دے گا

0
6