| جانِ جاں سے ملے ہیں تو جاں سے گئے |
| پھر سبھی اِس زمیں آسماں سے گئے |
| اُس کی یادوں کا سہرا سرہانے رہا |
| پھر نہ خوابوں کے ہم کارواں سے گئے |
| جب سے جذبوں کا منظر سجایا گیا |
| آنکھ سے اشک بہہ کر رواں سے گئے |
| جانِ جاں، وصل تیرا ثمر بن گیا |
| اور دنیا کے ہم ، امتحاں سے گئے |
| چشمِ تر میں اُترتے ہوئے خواب تھے |
| سب سرابِ تمنا، عیاں سے گئے |
| اک نظر کی تپش سے جگر جل گیا |
| زخمِ دل کے دُریدہ فُغاں سے گئے |
| آرزو کا سفینہ بھنور میں رہا |
| خواہشیں چھوڑ کر بادباں سے گئے |
| پھول ہونٹوں پہ، آنکھوں میں شعلے چھپے |
| لب کھُلے تو دلوں کے گُماں سے گئے |
| کیا زمانے نے ان کو جلایا نہیں؟ |
| وہ جو سایہ کئے سائباں سے گئے |
| کھود پائے نہ گہرا کنواں آب تک |
| لب زمیں سے تری ،تشنگاں سے گئے |
| آرزو کی تو شمعیں بجھا دی گئیں |
| سب نظارے رُخِ گلستاں سے گئے |
| وقت کے سنگ دل نے جو کچلا ہمیں |
| ناز تھا جس پہ اُس جسم و جاں ، سے گئے |
| ہجر کی رات لمبی تھی، کالی بہت |
| چاند جب مسکرایا، اماں سے گئے |
| رنگ و بُو کی حقیقت تھی اک لمحہ بس |
| سب تماشے سرِ باغباں سے گئے |
| ایک لمحے کا سودا رہا زندگی |
| دوستی، دشمنی، امتحاں سے گئے |
| ذہن میں حُسن کی ایک تصویر تھی |
| لیلیٰ مجنوں تو اس داستاں سے گئے |
| ہے ادب کا تقاضا خموشی مگر |
| چپ رہے جو وہ طارقؔ ، زباں سے گئے |
معلومات