خود سر محبّتوں کا اکرام کچھ تو ہو |
یا ہم پہ بے رُخی کا الزام کچھ تو ہو |
اِس زندگی کے نغمے آواز دیں چلو |
ہونے کا دیکھو رقصاں اقدام کچھ تو ہو |
وعدوں پہ کیسے کر لیں ہم اعتبار یوں |
جو کر چکے ہیں اب تک انعام کچھ تو ہو |
قاصد کو جو دیا تھا پیغام کھو گیا |
رستے میں جو تھا حائل بدنام کچھ تو ہو |
دوڑا لئے بہت ہیں کاغذ کے اسپ سب |
اب اِس سفر کا آخر انجام کچھ تو ہو |
اُس نے یہ کب کہا تھا آسان ہے سفر |
منزل پہ جا کے لیکن آرام کچھ تو ہو |
موقع اگر کبھی دے ہو جائے بات بھی |
کم اس کی گفتگو میں دُشنام کچھ تو ہو |
مدّت ہوئی کہ اس سے ہے راہ و رسم تو |
انکار میں بھی اس کے اِبہام کچھ تو ہو |
ہم چل پڑیں گے ملنے طوفاں بھی ہو اگر |
بھیجا کسی نے لیکن پیغام کچھ تو ہو |
طارق گزار دی ہے اک عمر آس پر |
اس کی رضا کا دل پر الہام کچھ تو ہو |
معلومات