ہوا میں پھیلی سنی ہے کسی کی آہ و فغاں
زمانہ چپ ہے مگر دل میں ایک شور نہاں
قدم قدم پہ بکھرتے ہیں اجنبی سے نشاں
تو کون راہ میں رکھتا ہمارے نقشِ رواں
نہ جانے کب سے مری ذات ایک صحرا ہے
کہ ساتھ میرے سفر کا فقط رہے ساماں
میں اپنے آپ سے باہر نکل کے دیکھوں اگر
ہر ایک چہرے کے پیچھے ملیں دبی خوشیاں
دبے تھے خواب جو سینے میں اب اُبھرنے لگے
ہے خامشی کی فصیلوں میں دی کسی نے اذاں
نظر کو دیکھ کے دل میں اٹھی سحر کی لو
یہ کون صبح سے پہلے ہوا ہے رنگ فشاں
کبھی تو شام کے پردوں سے صبح جھانکے گی
یہی یقین رکھا روشنی کا ہے امکاں
لہو سے لکھتے رہے خوابِ نو کی تحریریں
اندھیروں کو بھی تو ملنا ہے ایک دن عرفاں
ہوا کے سنگ چلو اب نیا زمانہ ہے
ہر ایک راہ پہ طارق دِکھے رُخِ جاناں

0
4