خوب ہے دِل جو اسی نام پہ قربان ہوا
وہی دلبر ہے ازل سے جو مری جان ہوا
عشق کر بیٹھا ہوں اس سے جو مرا مالک ہے
لوگ کہتے ہیں کوئی مجھ سا بھی نادان ہوا
راستے دُور مگر اُس سے ہے رشتہ قائم
میں تو کچھ دیر کو دنیا کا ہوں مہمان ہوا
جُستجو اُس کی جو کی ، پایا ہے اُس کو میں نے
خود کو کھو کر ہی تو وہ اب مری پہچان ہوا
ذِکر سے اُس کے بھرے لب تو ہے مہکا گلشن
وہ جو گویا ہوا ، کامل مرا ایمان ہوا
پھُول خُوشبو سبھی مظہر تو اسی ذات کے ہیں
دیکھ کر اُس کا چمن ہر کوئی حیران ہوا
جب نظر اُس پہ گئی اپنا تعارف بھولا
اس کے ہونے سے مِرے ہونے کا امکان ہوا
دِل کے صحرا میں وہی نقطۂ انوار بنا
ہر طرف اُس کا ہی پرتو ، وہی جانان ہوا
میں جو مٹ کر بھی رہا اُس کا کرم تھا طارقؔ
مر کے جینا تھا جو پورا مرا ارمان ہوا

0
2