سکون ڈھونڈ رہا ہوں یہاں ملے گا کیا |
زمیں کے بیچ کہیں آسماں ملے گا کیا |
ہوائیں سرد ہیں پتّے ہیں زرد سہمے ہوئے |
چمن کو پھر سے کوئی باغباں ملے گا کیا |
اگر یہ راستہ منزل کو لے کے جاتا ہے |
تو فکر کیوں ہے کہ اس کا نشاں ملے گا کیا |
ہے رسم و راہ تمہاری شریر لوگوں سے |
تو دور دور کہیں خانداں ملے گا کیا |
تمہاری راہ میں آنکھیں بچھائے گی دنیا |
اِدھر کو جاؤ تو اگلے جہاں ملے گا کیا |
بھٹک کے عمر گزاری اِدھر اُدھر پھرتے |
وہ راستہ ہے جہاں کہکشاں ملے گا کیا |
نصیب میں ہی نہیں یہ تو کوئی عذر نہیں |
ہلا ؤ ہاتھ نہ کھولو زباں ملے گا کیا |
جہاں پہ سر کو جھکا کر مرادیں پوری ہوں |
اگر نہ ڈھونڈو گے وہ آستاں ملے گا کیا |
خدا نے کہہ دیا تو پوچھتے ہو کیوں طارق |
ملے گا ہم کو ولیکن عیاں ملے گا کیا |
معلومات