حسیں نظّارے ، یہ کس نے کہا دشمن ہمارے ہیں
سہارا زندگی کا ان کو سمجھیں تو خسارے ہیں
بھنور میں گھر گئے تھے جب نظر دوڑا کے دیکھا تو
ڈبویا تھا انہی لوگوں نے جو بیٹھے کنارے ہیں
گراتے ہو جنہیں توحید کی توہین کہہ کر تم
ہوئے ان کی عبادت گاہ کے اونچے منارے ہیں
کبھی سوچا ،مقدّر میں ہے ان کے فتح و نصرت کیوں
وہ مٹھی بھر ، مقابل گرچہ دشمن ڈھیر سارے ہیں
یہی ہیں جن سے ، دُو بھر ہو گیا ہے دو قدم چلنا
یہی ہیں ذلّت و رسوائی کے جو لوگ مارے ہیں
اجالا اِس طرف ، ظلم و ضلالت دوسری جانب
یہیں شمس و قمر نکلے ، یہیں روشن ستارے ہیں
خدا جانے سمجھتے کیوں نہیں اہلِ خرد طارقؔ
کہ تائیدِ خدا وندی کے یہ واضح اشارے ہیں

0
7