دل کے آنگن میں جو اترے چاند ، کر دے روشنی
میرے باطن کے دریچوں کا نگر دے روشنی
پیار بھر کر جو نگاہوں میں ، ٹھہر کر دیکھ لے
سوچ سے بالا وہ خوشیوں کی خبر دے روشنی
میں نے تو ہر سمت دیکھے بجلیوں کے قُمقُمے
کوئی تو شعلہ ہو جو خوابوں میں بھر دے روشنی
اک صدا دل کے اندھیروں میں پکارے خضر کو
وہ اگر اسمِ ازل ہو تو اِدھر دے روشنی
جس کے کھِلنے سے محبّت کی مہک آنے لگے
پھول ہو خاموش ، خوشبو سے ، مگر دے روشنی
کھو ہی جاتا میں کسی رنگین رہ کے موڑ پر
راہبر ایسا ملا ہر راہ پر دے روشنی
لب سئے اور قفل میرے جسم پر ڈالے گئے
روح کی تاثیر بے خوف و خطر دے روشنی
تیرہ شب کیسے گزاری ،وہ تو قصّہ ہے طویل
ہم طلب رکھتے ہیں یارو ، اب سَحَر دے روشنی
ایسا مرہم ڈھونڈتے طارقؔ بِتا دی زندگی
مندمل کر کے مرے زخموں میں بھر دے روشنی

0
3