ہر روز دیکھتے ہیں اسے ، جب حجاب میں |
کب تک رہے گا سامنے ایسے نقاب میں |
دیکھی چمک اسی کی رُخِ ماہتاب میں |
بکھری مہک ہو جیسے کسی کی گلاب میں |
پڑھتے ہیں سب اسی کی کہانی نصاب میں |
اس سے وفا ہے فرض ہوئی اک کتاب میں |
ہو گا وصال و ہجر کے قصّے کا ذکر بھی |
دھُلتے ہیں سب گناہ تو ساون کے باب میں |
کھینچی ہے کس نے روح کے چہرے پہ تشنگی |
پانی کو ڈھونڈتا رہا ہوں اک سراب میں |
پوچھا کسی نے کیوں مجھے اتنا ہے اضطراب |
کہہ دوں کہ حوصلہ نہیں اتنا ، جواب میں |
ساقی نے جب وصال کی مجھ کو امید دی |
تیرا فراق بہہ گیا جیسے شراب میں |
جلتا رہا ہوں آگ میں ہجر و فراق کی |
تجھ سے جدائی بھی تو ہے شامل عذاب میں |
طارقؔ کروں گا پیشگی میں رحم کی اپیل |
نیکی کوئی لکھی بھی ہو میرے حساب میں |
معلومات