تیر نظریں بھی نہیں ہیں اور کماں ابرو نہیں
مر گیا آنکھوں کا پانی اور بہے آنسو نہیں
شامّہ کی حس گئی ہے یا بصارت چھن گئی
گُل کوئی اس دور میں کیا منبعِ خوشبو نہیں
کیا ہوئی تیری سماعت لمس تیرا ذائقہ
مر چکی ہیں قوّ تیں احساس کی جو خُو نہیں
دشت میں رہتے ہوئے مدّت ہوئی پر آج بھی
مجھ سے دریا پوچھتا ہے کیا بنا میں جُو نہیں
کیسے سمجھاؤں گا اس کو جس نے دیکھا ہے تجھے
اس شبِ تاریک کے پیچھے ترے گیسو نہیں
اس کے ہونے سے نہ جانے کیوں تمہیں انکار ہے
اس کی قدرت دیکھ لی تم نے بھی کیا ہر سُو نہیں
رونقیں لاکھوں ہیں محفل میں مگر کیا دل لگے
اس سے کیا ہم کو اگر موجود وہ گُل رُو نہیں
لوگ اب تیرے سخن کے معترف طارق ہوئے
چل دیے اُس وقت جب محفل میں دیکھا تُو نہیں

0
7