دل میں اک احساسِ ہستی کی جھلک باقی رہی
پردۂ عرفاں کی اک نوری رمق باقی رہی
چھوڑ دی دنیا تو کب سے باندھ کے رختِ سفر
پَر طلب کی موج دل میں اب تلک باقی رہی
جذب کی آہٹ نے چھُڑوا دیں پرانی عادتیں
دل کے اندر ہجر کی تھوڑی کسک باقی رہی
بادِ پرہیزاں چلی رستہ بھی بے انداز تھا
پر سفر میں قربِ یاراں کی دھڑک باقی رہی
حرص نے سب پیار کے جذبوں کو ٹھنڈا کر دیا
زندگی کی ایک چنگاری د ہک باقی رہی
جب طلسمِ ذات میں گم ہو کے لوٹے شام کو
روح کے صحرا میں اک ٹھنڈی سڑک باقی رہی
سوزِ مِیخانہ ملا جب آستاں کے باب سے
ہوش کی راہوں میں اک ہلکی کھنک باقی رہی
لب پہ ذکرِ دوست آیا تو کھلا پھر بھید یہ
چشمِ تر میں اس کے جلووں کی سِسَک باقی رہی
سر نیازِ عاشقی میں خاک پر جھک کر گِرا
ہر جھکاؤ میں بھی کیسی ہے دمک باقی رہی
راہبر وہ مل گیا جس کی جبیں پر نور تھا
ہر قدم ہر موڑ پر اُس کی چمک باقی رہی
گل کی خوشبو تھی چمن میں ہم وہاں گزرے جو کل
ہر نَفَس میں اپنے طارق اک مہک باقی رہی

0
2