نُور کے دریا میں گُم ہوں یوں تو بھٹکا بھی نہیں |
ڈھونڈنے نکلا تھا خود کو خود سے ملتا بھی نہیں |
دل کے سجدوں میں جو آیا وہ تو مولا ہی ہوا |
دل کے رستے میں تو کعبہ یا کلیسا بھی نہیں |
غور سے دیکھا جو اپنا عکس آیا ہے نظر |
آئنے میں اب کوئی چہرہ پرایا بھی نہیں |
خواب بھی جلتے رہے ہیں نیند بھی بکھری ہوئی |
ذکر میں ڈوبا ہوا ہوں اور تقاضا بھی نہیں |
خاک سے پیدا ہوا تھا خاک ہی میں جاؤں گا |
دل کبھی دُنیائے ہستی سے لگایا بھی نہیں |
ذکر و فکرِ زندگی ہے اور ہے تنہائی بھی |
کچھ نہیں باقی ابھی کچھ اور آیا بھی نہیں |
صوتِ حق سن لی جو دل نے وسوسے سب مٹ گئے |
اب کوئی آواز باقی کوئی دعویٰ بھی نہیں |
آنکھ جب کھولی حقیقت پر سے پردے اٹھ گئے |
اب نظر میں سچ کے جلوے ہیں تماشا بھی نہیں |
ذہن میں جو خاک تھی وہ نور میں ڈھلتی گئی |
راستہ دکھلا رہا ہوں گو چراغاں بھی نہیں |
ذکر کرتے آگہی کے راز دل پر کھُل گئے |
اب نیازِ دل کا سودا کوئی سودا بھی نہیں |
محوِ حیرت ہوں مرا چہرہ کہاں پر کھو گیا |
میں ہی میں باقی ہوں طارق اور تنہا بھی نہیں |
معلومات