مرے دُکھوں سے اسے کوئی واسطہ ہی نہیں
مرا جو اس سے کبھی رابطہ ہوا ہی نہیں
میں گن بھی لوں سبھی لہریں جو آ کے ٹکرائیں
سمندروں کو تو ساحل کا کچھ پتہ ہی نہیں
فراقِ یار مجھے کاٹنے کو دوڑتا ہے
مگر یہ درد کبھی اس کو کاٹتا ہی نہیں
نہ جانے کونسے احساں کا میں نے ذکر کیا
ملیں ہیں نعمتیں اتنی میں جانتا ہی نہیں
جنونِ عشق میں سودا کیا ہے جو میں نے
یہ کیسا دل ہے خرد کی جو مانتا ہی نہیں
کسی کی چشمِ حسیں نے ہے یہ پیام دیا
نہیں بصیر جو وہ نُور یافتہ ہی نہیں
میں کیسے عدل کے عنواں پہ اس سے بات کروں
کہ جس کی زندگی میں کوئی ضابطہ ہی نہیں
سکون ڈھونڈنے نکلو تو آزمانا اسے
جو اس کا ہو وہ کوئی فکر جانتا ہی نہیں
مجھے تو شکر ہے واجب غلام ہوں اس کا
وہ گر حساب کبھی مجھ سے مانگتا ہی نہیں
اسی جہان میں طارق حساب جاری ہے
کہ جس حساب سے دل تیرا کانپتا ہی نہیں

0
4