| کروں کیا بہانا کہ تنہا ہوں میں |
| سفر ہی میں ، جانا ، کہ تنہا ہوں میں |
| نہ منزل، نہ رستہ، نہ کوئی صدا |
| نہ کوئی ٹھکانہ ، کہ تنہا ہوں میں |
| کبھی آئنوں سے ملی جو نظر |
| تو پھر میں نے مانا کہ تنہا ہوں میں |
| سبھی دھیرے دھیرے جدا ہو گئے |
| کسی کو ملانا کہ تنہا ہوں میں |
| تڑپ کر صدا دے رہا ہے کوئی |
| کوئی گیت گانا کہ تنہا میں ہوں |
| یہ ہنگامۂ وقت کیوں تھم گیا |
| بتائے زمانہ کہ تنہا ہوں میں |
| خموشی کے لہجے میں کہنے لگا |
| کہانی سنانا کہ تنہا ہوں میں |
| میں راہِ عدم کا مسافر تو ہوں |
| نہ اور آزمانا کہ تنہا ہوں میں |
| یہی دردِ الفت یہی جانِ جاں |
| مرا ساز لانا کہ تنہا ہوں میں |
| یہ دنیا ہے کیا خواب ہی تو ہے اک |
| مجھے مت جگانا کہ تنہا ہوں میں |
| عبث دل کو بھیجا خدا کے حضور |
| اُسے کیا بتانا کہ تنہا ہوں میں |
| ازل سے ابد تک جو طارقؔ سُنا |
| ہے اس کا ترانہ کہ تنہا ہوں میں |
معلومات