باندھ کر بند جو اک دریا رواں باندھتا ہے
اس کی تعریفوں کے پُل ایک جہاں باندھتا ہے
قافیہ باندھ کے شاعر کو بھی ہو داد کی آس
منحصر اس پہ ہے وہ کس کو کہاں باندھتا ہے
لوگ سنتے ہیں اسی کو جو توجّہ کھینچے
شعر پڑھتا ہے کہ دلچسپ بیاں باندھتا ہے
نرم لہجے میں دلائل پہ وہ رکھ کر بنیاد
بولتا ہے تو مقابل کی زباں باندھتا ہے
تم نے دیکھا نہیں مہتاب کو آنچل اوڑھے
وہ گلابوں کی حسیں رُت کا سماں باندھتا ہے
اس کے چہرے پہ تقدّس کی فضا ہے ایسی
جو اسے دیکھے فرشتوں کا گماں باندھتا ہے
ہے کمال اس کا ہنر ، اس کی مہارت طارقؔ
دیکھنا کیسے وہ سرکش کی عناں باندھتا ہے

0
4