فطرتِ انساں میں ہے نُورِ ازل سے روشنی
نار پھیلائے گی کیا ، جنگ و جدل سے روشنی
جسم کی دیوار کے پیچھے چھپی ہے ایک روح
سچ کی جلوت میں بکھرتی ہے عمل سے روشنی
دل کی گہرائی میں جب کوئی سخن اُترے بھلا
جگمگاتی پھر ادب میں ہے ، غزل سے روشنی
کیا خوشی ہے کیا ہے غم ، بھولیں سبھی وصل و فراق
ذکر اِس کا ہو تو پیدا ہو ، اجل سے روشنی
لا مکان و لامکاں کے درمیاں مضمون ہے
حق شناسی کی نمو میں ایک پل سے روشنی
نیک فطرت خود بتا دے گی تمہیں سب جھوٹ سچ
کس طرف لے جائے گی تم کو جَہل سے روشنی
امن کی بربادیاں ہیں ، آگ لے کر آئی ہے
خوف پھیلاتی ہوئی ، جنگ و جدل سے روشنی
قدر انساں کی نظر آئے گی کیا انسان کو
خیرہ کر دے آنکھ ، جب چمکے دجل سے روشنی
ایک لمحہ سوچ کا ، در عقل کے سب وا کرے
علم کا جب ساتھ دیتی ہے ، عمل سے روشنی
فقر کے در پر جو رکھ آیا تمنّاؤں کا بار
اُس کو مل جائے قناعت کے محل سے روشنی
حُسنِ وحدت کو سمجھنے کے لیے گر دل ہو صاف
خود بخود دل میں اُترتی ہے ازل سے روشنی
چاند پیاسا ہے تو سیرابی کو اترے جھیل میں
دُور کر دے تشنگی ، دن بھر کنول سے روشنی
دل کے اندر نور ہو پیدا تو وہ دکھلائے راہ
کیا دکھائے گی تمہیں قسمت ، رمَل سے روشنی
دل سمو لیتا ہے جب حُبِّ حبیبِ کبریا
پھر عطا ہوتی ہے ربِّ عزّ و جل سے روشنی
رفتہ رفتہ سارے عالم پر عیاں ہو جائے گی
روک پایا کون ، تقدیرِ اٹل سے روشنی
ہر کوئی موسیٰ نہیں طارقؔ ، ہو جلوہ طُور کا
ہر کسی کو کب نظر آئی جبل سے روشنی

0
5