دل کے دریا میں اٹھا موج کا ساماں اُس کا
میں کہاں جاتا مرے دل میں تھا پیماں اُس کا
روشنی تیری تجلّی سے ہے ہر ذرّے میں
ذرّہ ذرّہ مرا قربان ہے احساں اُس کا
میں نے صحرا میں اسے ڈھونڈا تو آئی یہ صدا
ذات پوشیدہ سہی جلوہ ہے عُریاں اُس کا
خاک چومے تری گلیوں کی مرے دل والا
عشق الفت کا نہیں کھیل ہے ایماں اُس کا
چشمِ مست اس کی اداسی میں لطافت کی مہک
پھول سوکھے بھی خوشاں عشق میں امکاں اُس کا
میں نے مانا کہ فقیری میں سکونِ دل ہے
پھر بھی اس ناز کا چہرہ غمِ پُرساں اُس کا
درِ جاناں پہ ادب شرطِ ارادت نکلی
دل کہے جاؤں مگر لب پہ ہے فرماں اُس کا
وقت رکتا نہیں جذبہ تو مگر باقی ہے
یہ تسلّی ہے مرا سینہ نگہباں اُس کا
عشق فانی نہیں باقی ہے سرِ وصل کے بعد
راز یہ کیا ہے لکھا اُس میں جو قرآں اُس کا
طارق اب محو بہ صد شوق ہوں ہُو کے اندر
لب پہ ہے نام مرے دل میں ہے عرفاں اُس کا

0
2