نویدِ صبحِ شبِ انتظار آئی ہے |
نہ ایک بار خبر بار بار آئی ہے |
نمُو ملا ہے جو پتّوں کو اک شجر بن کر |
انہی کے دم سے خزاں میں بہار آئی ہے |
ہوئی ہے روح معطّر بدن کے اندر تک |
ہوا کے دوش پہ خوشبو سوار آئی ہے |
جہاں وہ اترا خبر دے سفید مینارہ |
اٹھائے سیڑھیاں خلقت ہزار آئی ہے |
اٹے تھے دھول سے کتنے دلوں کے آئینے |
دھُلے ہیں ابر جو برسا پھوار آئی ہے |
وہ باغبان جو اترا ہے آسمانوں سے |
چمن کو اس کی توجّہ نکھار آئی ہے |
بجھانے پیاس لئے کوزے اپنے ہاتھوں میں |
ہجومِ تشنہ لباں کی قطار آئی ہے |
ہے فوج عاشقوں کی اس طرف روانہ ہوئی |
اُڑا کے رستے پہ گرد و غبار آئی ہے |
مسیح آگیا ہے آگئی خبر طارق |
مری تو کب سے تھکن سب اتار آئی ہے |
معلومات