یہ وقت ہے کہ چراغِ وفا جلائے جائیں
کہ دل ہوں صاف سبھی بد گماں مٹائے جائیں
جہاں میں جنگ نے برباد ہی کیا سب کو
نہ ہو لڑائی کوئی سلسلہ بنائے جائیں
نہ سرحدوں پہ ہو پہرا نہ دل میں دیواریں
محبتوں کے نئے راستے سجائے جائیں
زمیں کو خون سے دھونا کوئی ہنر تو نہیں
قدم اٹھائیں کہ ناحق نہ خوں بہائے جائیں
ہر ایک چہرے پہ ہو روشنی سکون ہنسی
یہ فیصلہ ہو نئے زخم مت لگائے جائیں
نہ ہو فضا میں صدا نفرتوں کے نعروں کی
محبّتوں کے دیے چار سُو جلائے جائیں
ہزار بار بکھر کر بھی ہم نے چاہا ہے
کہ ٹوٹے رشتے دوبارہ سے پھر بنائے جائیں
سنا ہے صلح کے موتی ہوئے ہیں اب نایاب
چلو دلوں کی زمیں پر وہی اگائے جائیں
نہ پوچھ کس نے جلائے ہیں شہر کے آنگن
اہم ہے شعلے یہ طارق سبھی بجھائے جائیں

0
9